حافظ محمد ادریس
جنگ موتہ (جمادی الاولیٰ 8ھ) میں اہلِ اسلام کی کامیاب حکمت عملی سے صلیبی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس کے چند ماہ بعد رمضان 8ھ میں آپؐ نے مکہ فتح کر لیا۔ قیصرِ روم نے مسلمانوں کو جنگ موتہ میں فتح پانے کی سزا دینے کے لیے سرحدِ شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ماتحت غسانی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ نبی اکرمؐ اس سے بے خبرنہ تھے۔
آپ ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبردار رہتے تھے‘ جس کا اسلامی ریاست پر کچھ بھی موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو۔ بقول سید مودودی: ’’رجب 9ھ میں نبی اکرمؐ 30 ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، جن میں دس ہزار سوار تھے۔ اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس پر گرمی کی شدت اور پانی کی قلت مستزاد، مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے حلیفوں نے مقابلے پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹالی ہیں اور اب کوئی دشمن موجود نہیں ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔
سیرت نگار بالعموم اس واقعے کو اس انداز سے لکھ جاتے ہیں کہ گویا وہ خبر ہی سرے سے غلط نکلی، جو آپؐ کو رومی افواج کے اجتماع کے متعلق ملی تھی؛ حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ قیصر نے اجتماعِ افواج شروع کیا تھا، لیکن جب آپؐ اُس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی مقابلے پر پہنچ گئے، تو اس نے سرحد سے فوجیں ہٹا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا‘‘۔ (تفہیم القرآن، سورۂ توبہ)
غزوۂ تبوک میں قدم قدم پر ایمان افروز واقعات رونما ہوئے۔ مدینہ منورہ سے چلتے وقت آپؐ کے وہ جاں نثار صحابہ جن کے پاس سواریاں نہ تھیں اور اس وجہ سے وہ شریکِ جہاد نہ ہوسکے، آپؐ کو رخصت کرتے ہوئے زارو قطار رو رہے تھے۔ قرآن مجید نے اس کی گواہی دی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اسی طرح اْن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے، جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا، تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ اْن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی قدرت نہیں رکھتے‘‘۔ (التوبہ 9:92)
راستے میں نبی اکرمؐ نے صحابہ سے فرمایا: ’’مدینہ میں کچھ لوگ رہ گئے ہیں، جو قدم بقدم تمہارے ساتھ ہیں۔ تم نے جو منزل بھی طے کی ہے اور جو قدم بھی اٹھائے ہیں، اس سب میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ ہیں‘‘۔ صحابہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ہم اس کٹھن سفر کی مشکلات جھیل رہے ہیں اور وہ مدینہ کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھے ہیں‘‘۔ آپ نے جواب دیا: ’’وہ پیچھے رہنے والے نہ تھے، انہیں معذوری نے روک لیا ہے‘‘۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکیمانہ نظامِ زندگی جامد اور بے روح اصولوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس کے اندر انسانی کیفیات، نفسیات اور معروضی حالات کو ملحوظ رکھنے کی صلاحیت اور روح بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس غزوہ میں شریک دو جلیل القدر صحابہ ابو خیثمہ انصاری اور ابو ذر غفاریؓ کے واقعات بھی بڑے ایمان افروز ہیں۔
نبی اکرمؐ صبح سویرے تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ ابوخیثمہؓ اپنے باغ سے گھر واپس آئے، دوپہر کا وقت تھا اور شدید لُو چل رہی تھی۔ ابو خیثمہ کی دو بیویاں تھیں۔
دونوں نے اپنے کمروں کے دروازوں پر پردے لٹکائے ہوئے تھے اور کمرے اندر سے پوچ رکھے تھے۔ لذیذ کھانا پکا ہوا تھا اور ٹھنڈے پانی کے گھڑے بھرے ہوئے تھے۔ ابو خیثمہ کو شہر میں داخل ہوتے ہی پتا چلا کہ نبی اکرمؐ اور آپ کے ساتھی، صبح ہی صبح تبوک کی جانب چلے گئے ہیں۔ مدینہ کے گلی کوچے ویران اور اْداس تھے۔ شہر سے گزر کر ابو خیثمہؓ نے اپنے کمروں کے دروازوں پر پہنچ کر دیکھا کہ اْن کی بیویاں اْن کی منتظر ہیں۔
کمروں کی خنکی اور باہر کی شدید لُو کے تناظر میں ابوخیثمہ نے اپنے آپ سے کہا: ’’رسول اللہ! چلچلاتی دْھوپ میں اور تپتے ریگستانوں میں لْو کے تھپیڑوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ابوخیثمہ ٹھنڈے سائے میں، لذیذ کھانوں کے مزے لْوٹنے کے لیے یہ دوپہر یہاں گزارے گا؟‘‘ پھر کہا: ’’بخدا! میں تم دونوں میں سے کسی کے جھونپڑے میں ہرگز داخل نہیں ہوں گا۔ میں رسول اللہ کے پاس جائوں گا۔ میرا زادِ راہ فوراً تیار کرو‘‘۔ انہوں نے زادِ سفر تیار کر دیا تو اپنے باغ میں پہنچے، اونٹنی پر کجاوہ کسا اور عین دوپہر میں نِکل کھڑے ہوئے۔ اْدھر نبی اکرمؐ جس روز تبوک میں نازل ہوئے، اسی روز ابو خیثمہؓبھی وہاں جاپہنچے۔ ابو خیثمہؓ کے تبوک پہنچنے سے قبل نبیؐ اور صحابہؓ وہاں مقیم تھے۔ جب ابو خیثمہ قریب پہنچے تو صحابہ نے کہا: ’’کوئی سوار اس جانب (تنہا) آرہا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ ابوخیثمہ ہوگا‘‘۔ جب وہ آپہنچے تو صحابہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! واقعی یہ ابوخیثمہ ہی تھا‘‘۔
ابوخیثمہؓ اپنی اونٹنی سے اتر کر نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا: ’’اے ابوخیثمہ! اگر تو پیچھے رہ جاتا تو ہلاکت کے کنارے پہنچ چکا تھا‘‘۔ ابوخیثمہ نے اپنی پوری کہانی سنادی۔ اس پر نبی اکرمؐ نے اْن کے حق میں برکت اور خیر کی دعا کی۔
اپنی راتیں اللہ کے سامنے قیام اور رکوع و سجود میں گزار دینے والے سیدنا ابوذرغفاریؓ میدانِ جہاد میں بھی ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے۔ تمام ہی صحابہ رہبان اللیل اور فرسان النہار کی مثال تھے، مگر ابوذرغفاریؓ تو اس میں بالکل منفرد و ممتاز تھے۔ غزوہ تبوک میں ابوذرغفاریؓ کا اونٹ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اسے اٹھانے کی کوشش کی، مگر جب وہ نہ اٹھا تو پیدل ہی چل پڑے۔ صحابہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! کوئی تنہا مسافر ریگستان میں پیدل چلا آرہا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ”ابوذر ہوگا، وہی اکیلا چلنے کی ہمت رکھتا ہے۔ اکیلے ہی میں اسے وفات آئے گی اور اکیلا ہی قیامت کو اٹھے گا‘‘۔ ابوذرغفاریؓ کارواں کے پاس آپہنچے اور صحابہ نے ان کو یہ واقعہ بتایا تو وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ نے یہ اور یہ فرمایا ہے؟ آپ نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ تو عرض کیا: ’’مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں، مگر میں تنہا فوت ہوگیا تو میری نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین کا اہتمام کون کرے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کی فکر نہ کرو، تمہاری نماز جنازہ میں مومنین کی ایک جماعت شریک ہوگی‘‘۔
سیدنا ابوذرغفاریؓ کو خلیفہ سوم سیدنا عثمانؓ نے مدینہ سے ربذہ (عراق) چلے جانے کا حکم دیا؛ چنانچہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ وہاں چلے گئے۔ 32ھ کے ایام حج میں ربذہ کے تمام لوگ بیوی بچوں سمیت حج کے لیے چلے گئے۔ ابوذرغفاریؓ کے ساتھ صرف ان کی بوڑھی بیوی اور ایک بیٹی موجود تھی۔ اسی دوران آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ جب نزع کی حالت طاری ہوئی تو ان کی اہلیہ رونے لگیں۔ ابوذرؓ نے نحیف آواز میں پوچھا کہ روتی کیوں ہو؟ اہلیہ نے جواب دیا: ’’آپ ایک ویرانے میں دم توڑ رہے ہیں، نہ میرے پاس اتنا کپڑا ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں اور نہ ہی میرے بازوئوں میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کی ابدی خواب گاہ تیار کرسکوں‘‘۔ ابوذرغفاریؓ نے فرمایا: ’’نبی پاکؐ نے مجھے بتایا تھا کہ میں صحرا میں وفات پائوں گا اور مومنین کی ایک جماعت میری نماز جنازہ میں شریک ہوگی۔ تم باہر جاکر دیکھو، آپ کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت ضرور آتی ہوگی‘‘۔ ابو ذرؓ کی اہلیہ ٹیلے پر چڑھ کر انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد چند سوار نمودار ہوئے۔ جب قریب آئے تو ابوذرؓ کی زوجہ نے کہا: ’’بھائیو! قریب ہی ایک مسلمان سفرِ آخرت کی تیاری کر رہا ہے، اس کے کفن دفن میں میرا ہاتھ بٹائو۔‘‘ قافلے والوں نے پوچھا: ’’وہ کون شخص ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’ابوذرغفاری‘‘۔
ابوذرؓ کا نام سنتے ہی قافلے والے بیتاب ہوگئے اور ’’ہمارے ماں باپ اْن پر قربان ہوں‘‘ پکارتے ہوئے، ان کی طرف لپکے، یہ لوگ ابوذرؓ کے پاس پہنچے اور انہوں نے بسم اللہ وباللہ وعلی ملۃ رسول اللہ کہہ کر جان جان ِآفریں کے سپرد کردی۔ فقیہ امت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر سب نے مل کر اس آفتاب ِرشد وہدایت کو سپرد خاک کر دیا۔