بھارت امریکا تعلقات

235

امریکی صدر ٹرمپ اپنا دو روزہ دورۂ بھارت مکمل کر کے وطن واپس لوٹ گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جس نے بھارت کا دورہ کیا ہے لیکن صدر ٹرمپ کا حالیہ دورہ بھارت چونکہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا اس لیے اس پر پوری دنیا کی نظریں بالعموم اور پاکستان کی نظریں خاص طور پر مرکوز تھیں۔ صدر ٹرمپ کے اس متذکرہ دورے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے یہ دورہ چونکہ اپنے اقتدار کے آخری سال میں کیا ہے اس لیے اس سے نہ تو امریکا کو کوئی خاطر خواہ فائدہ ہوگا اور نہ ہی بھارت کو اس دورے سے کوئی بڑی امید رکھنی چاہیے کیونکہ کسی بھی امریکی صدر کے لیے انتخابی سال کے دوران کسی ملک کو کوئی خاص فائدہ پہنچانا عام طور پر اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کہ نریندر مودی اینڈ کمپنی سمجھ رہی ہے۔ دراصل امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ امریکا کے نتائج کے بارے میں فی الوقت حتمی طور پر تو کچھ کہنا یقینا قبل از وقت ہوگا البتہ یہ دورہ ایک ایسے موقعے پر کیا گیا ہے جب ایک جانب امریکی صدر کو اس سال نومبر میں ایک بار پھر صدارتی انتخابات کے میدان میں اترنا ہے اور انہیں اس پل صراط کو عبور کرنے کے لیے تنکا تنکا جوڑنا ہوگا کیونکہ امریکی ووٹرز تیسری دنیا کی نام نہاد جمہوریتوں کی طرح بلا سوچے سمجھے ووٹ دینے کی عادت نہیں رکھتے بلکہ وہ ووٹ دیتے ہوئے کارکردگی اور ملکی مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں جس میں سب سے نمایاں پہلو ملک کی اندرونی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت ہوتا ہے اس لیے صدر ٹر مپ جو اپنے گزشتہ دعوئوں اور انتخابی نعروں کو اپنے عرصہ اقتدار میں اس طرح عملی جامہ نہیں پہنا سکے ہیں جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی اس لیے مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں اپنی انتخابی کامیابی کے لیے ہر دائو پیچ آزمانا ہوگا اسی لیے مبصرین کی اکثریت ان کے حالیہ دورہ بھارت کو اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں بھارت نژاد شہریوں کی مجموعی تعداد چالیس لاکھ سے زائد ہے جو امریکا کے کل ووٹرز کا چار فی صد بنتے ہیں لہٰذا صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ مودی کا دامن پکڑ کر کم از کم یہ چالیس لاکھ ووٹ کھرے کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب بنیا کا بیٹا بھی چونکہ کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے اس لیے مودی جس کی شاطرانہ اور انتہا پسندانہ سوچ اب چونکہ کوئی راز نہیں رہی اس لیے وہ امریکی صدر کی مجبوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے چکر میں نظر آتے ہیں۔ مودی کی اس مکارانہ سوچ کا اظہار وہ جہاں پچھلے سال ہیوسٹن میں ہندو کمیونٹی کے ایک بڑے اجتماع سے صدر ٹرمپ کے ہمراہ اپنے متعصبانہ خطاب کے ذریعے کر چکے ہیں وہاں اب نریندرمودی کشمیر کی سنگین صورتحال اور متنازع شہریت بل کے خلاف ہونے والے ملک گیر احتجاج کا اندرونی اور بیرونی دبائو کم کرنے لیے صدر ٹرمپ کو اپنے آبائی شہر احمد آباد میں دنیا کے سب سے بڑے کر کٹ اسٹیڈیم میں ایک لاکھ مجمع سے خطاب کا موقع دے کر شیشے میں اتارنے کا ناکام مظاہرہ کر چکے ہیں جس سے ان کا سیاہ چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ نریندر مودی کا خیال ہے کہ وہ اپنے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے صدر ٹرمپ اور امریکا کو نہ صرف بھارت کے حق میں مرعوب کر سکیں گے بلکہ ان کے یہ سطحی اقدامات اپنانے کا مقصد دنیا بالخصوص چین اور پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ آزمائش کی سخت گھڑیوں میں امریکا بھارت کے ساتھ کھڑا ہوگا حالانکہ امریکا کی توتا چشمی پر مبنی دوستی سے پاکستان سے زیادہ اور کون واقف ہو سکتا ہے جو امریکا کی اس نام نہاد دوستی کا نہ صرف باربار جلا ہوا ہے بلکہ اب اس کے ہاتھ کا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے کا عادی ہوگیا ہے۔
نریندر مودی کا فاشسٹ چہرہ کشمیر میں کھیلی جانے والی آگ اور خون کی ہولی نیز مسلمانوں کے خلاف گجرات کے بعد دہلی اور ملک کے کونے کونے میں پھیلائے جانے والے تعصب پر مبنی گھنائونے عزائم کی صورت میں چونکہ ساری دنیا پر آشکارا ہو چکا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کو ان کے دورہ بھارت میں بار بار پاکستان کے خلاف زبان کھلوالنے کی تمام تر بھارتی سازشوں کے باوجود وہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کوئی ایک بھی ایسا لفظ ان کے منہ سے نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے جس کو جواز بنا کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکتی تھیں بلکہ الٹا صدر ٹرمپ نے پاکستان کے متعلق مثبت لب ولہجہ اختیار کر کے ان تمام سازشوں پر مٹی ڈال کر نریندر مودی کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے جسے طالبان امریکا امن معاہدے کے تناظر میں پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قرار نہ دینا یقینا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔