دہلی میں قتل عام اور مسلم ممالک کی بے حسی

288

بھارتی دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ محلے کے محلے جلا دیے گئے ہیں ۔ گھر تو گھر مساجد تک محفوظ نہیں ہیں ۔ ہر طرف قتل و غارت گری ہے یا پھر مسلمانوں کی املاک کو لگائی گئی آگ اور دھواں ۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت کے ایماء پر اور وہاں کی پولیس کی حفاظت میں کیا جارہا ہے ۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے باشندوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتی ہیں مگر بھارتی حکومت کا معاملہ ہی جدا ہے۔ مودی جب گجرات میں تھا تو اس نے اس وقت بھی یہی کچھ کیا تھا اور اب دلی میں گجرات کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو بھارتی حکومت کی جانب سے ہاتھ پیر باندھ کر بلوائیوں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کی اس نسل کشی پر نہ تو اقوام متحدہ ہی کوئی عملی کردار ادا کرنے پر تیار ہے اور نہ ہی مسلم ممالک ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بس اس بارے میں ایک بیان دے کر اپنا فرض ادا کردیا ہے کہ یہ سب افسوسناک ہے ۔ دلی میں مسلمانوں پر حملے ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران ہی شروع ہوئے تھے ۔ پوری دنیا کا ٹھیکیدار ہونے کے دعوے دارامریکی صدر کے منہ سے بھی اس بارے میں ایک لفظ نہیں نکلا ۔ سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی ہے جو کہیں سوئی پڑی ہے ۔ صرف ترکی کے حکمراں اردوان ہی ہیں جنہوں نے بھارت کی مذمت کی ہے ۔ سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان پر عاید ہوتی ہے مگر پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم سمیت سارے ہی حکمرانوںکا خیال ہے کہ بھارت جتنے مظالم کرے گا، اتنی جلد ٹوٹ جائے گا ۔ اس لیے تماشا دیکھنا چاہیے ۔ اس وقت بھارت کے مسلمانوں کو مدد کی ضرورت ہے نہ کہ ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھنے والوں کی ۔ عرب حکمراں مودی کے ساتھ دوستی کے جام لنڈھانے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے مودی کی ہمت بڑھی ہے ۔ اردوان اور مہاتیر محمد سے امیدیں بندھی تھیں تو ملائیشیا میں فی الوقت مہاتیر اب حکمراں نہیں رہے جس کی وجہ سے مسلم ممالک میں ابھرتا ہوا نیا اتحاد فی الحال کنارے ہوگیا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستانی حکمراں ہی اب دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی سے باہر نکل آئیں اور عملی اقدامات پر توجہ دیں ۔ اگر پاکستانی قیادت نے مودی کی پیشقدمی نہ روکی تو یہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوںکے ساتھ ساتھ خود پاکستان کے لیے بھی بہتر نہیں ہوگا۔