اسلامی امارت افغانستان اور امریکا میں معاہدہ

1020

امریکا نے بالاخر افغانستا ن سے رخت سفر باندھ لیا ہے ۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اس سلسلے میں تحریری معاہدہ طے پاگیا ہے ۔ سنیچر کا دن ایک تاریخی دن تھا کہ امریکی جنہیں کسی قابل نہیں سمجھتے تھے ، ان کے ساتھ کئی برس تک برابری کی سطح پر مذاکرات کرتے رہے اور اب ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے ۔ امریکیوں نے پروپیگنڈا تو خوب کیا ہے کہ اب طالبان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آگئی ہے ، اس لیے معاہدہ ممکن ہوسکا تاہم اس کا مسکت جواب طالبان کے رہنما اور پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے خوب دیا ہے کہ طالبان کسی ملک پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے ۔ یہ امریکا تھا جس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اس زعم میں تھا کہ چند ماہ میں سب کو خاک چٹا دے گا ۔ سوچ میں تبدیلی طالبان کے اندر نہیں آئی بلکہ امریکا کے آئی ہے اور اسے زمینی حقائق کا خوب ادراک ہوگیا ہے ۔ تاہم ان زمینی حقائق کا امریکا کو ادراک ہونے تک افغانستان کے ساتھ ہمسایہ ملک پاکستان بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ۔ کئی لاکھ افراد اپنی جان سے گئے ۔ افغانوں کی ایک اور نسل آگ اور خون میں جوان ہوئی ۔ امریکا کو نہ صرف اس امر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے اس خطے میں تباہی پھیلی بلکہ اب اس کی تلافی کے لیے اقدامات بھی کھلے دل سے کرنے چاہییں ۔ معاہدے میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ طالبان نے معاہدہ اسلامی امارت افغانستان کے جھنڈے تلے کیا ہے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ امریکا نے افغانستان پر طالبان کی حکومت تسلیم کرلی ہے ۔ اب اسے اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بھی ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے اور افغانستان میں طالبان کے حق کو تسلیم کرے ۔ معاہدے کے تحت امریکی فوج افغانستان سے مکمل طور پر 14 ماہ کے عرصے میں نکل جائے گی ۔ بہتر ہوگا کہ امریکی فوج افغانستان سے سبق سیکھے اور صرف افغانستان سے ہی نہیں بلکہ عراق، یمن ، شام اور لیبیا سے بھی رخت سفر باندھ لے ۔ دوحہ میں جہاں پر امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے وہاں امریکا کا ایشیا کو کنٹرول کرنے کی سنٹرل کمانڈ کا دفتر قائم ہے ۔ یہیں پر اس کی فوج کے ریزرو دستے مقیم ہیں ۔ بہتر ہوگاکہ امریکا اس معاہدے کے بعد دوحہ میں اپنے اس دفتر کو بھی تالا لگادے ۔ امریکی عوام اور امریکی قیادت دونوں کو اس بات کو مان لینا چاہیے کہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا اوراب وہ دوسرے ممالک کو فتح کرنے کے بجائے اپنے ملک کی ترقی پر توجہ دیں ۔ گزشتہ بیس برسوں میں دنیا کے دوسرے ممالک میں امریکی فوج کشی نے ان ممالک میں تو تباہی پھیلائی ہی ہے مگر اس نے امریکا پر بھی کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کیے ۔ امریکی معیشت تباہ و برباد ہوگئی اور امریکی حکومت اس وقت 20 ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے ۔ اگر امریکی قیادت دیگر ممالک پر فوج کشی کے احمقانہ فیصلے نہ کرتی تو آج امریکی قوم کا یہ حال نہ ہوتا ۔ اصولی طور پر تو جارج بش سے لے کر ٹرمپ تک سارے ہی امریکی صدور کا اس جرم میں مواخذہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے انسانیت کی تباہی کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا اور دنیا بھر میں خصوصا ایشیا میں تباہی پھیلا کر رکھ دی ۔ تاریخ میں ان امریکی صدور کا نام چنگیز خان اور ہلاکو خان کی فہرست میں لکھا جائے گا ۔ توقع کی جاتی ہے کہ طالبان قیادت بھی ہوشمندی کا مظاہرہ کرے گی اور افغانستان میں سول وار کا خاتمہ کرکے اب افغانوں کی ترقی کا نیا باب شروع ہوگا ۔ موجودہ افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے معاہدے کی پاسداری کرے اور معاہدے پر عملدرآمد میں خواہ مخواہ کے روڑے نہ اٹکائے ۔ جیسا کہ معاہدے میں لکھا ہے کہ یہ معاہدہ افغانستان اسلامی امارت اور امریکا کے مابین طے پایا ہے تو اب افغانستان اسلامی امارت کو اقتدار کی منتقلی میں امریکا اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو رکاوٹ نہ بننے دے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان اسی طرح آگ اور خون میں غلطاں رہے گا ۔ اگر امریکی حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہ کی اور قیدیوںکی رہائی اور حکومت کی منتقلی جیسے اہم امور کو انجام دینے میں لیت و لعل سے کام لیا تو پھر طالبان کے پاس بھی معاہدے سے دستبردار ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا جو کہ خطے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لیے بھی انتہائی افسوسناک ہوگا ۔ طالبان کا امریکا کے ساتھ معاہدہ پاکستانی قیادت کے لیے بھی ایک بڑا سبق ہے کہ وہی لوگ عزت پاتے ہیں جو سر نہیں جھکاتے ۔ 5 اگست کے بعد سے جس طرح بھارت مسلسل کشمیر میں پیشقدمی کررہا ہے ، اس کی واحد وجہ پاکستان کی طرف سے مزاحمت نہ کرنا ہے۔ عملی مزاحمت تو دور کی بات ہے ، پاکستان نے تو سفارتی محاذ پر بھی کوئی کوشش ہی نہیں کی ۔ اقوام متحدہ لے کر اسلامی ممالک کی تنظیم تک ، ہر فورم پر پاکستان نے بھارت کو واک اوور دیا ہے جو کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی مایوسی کا سبب بن رہا ہے ۔ پاکستان کو بھی وقت کو پہچاننا چاہیے اور دوست و دشمن میں تمیز کرنی چاہیے ۔ اب طالبان افغانستان میں فاتح ہیں اور امریکی شکست خوردہ ۔ پاکستان کو بھی اب طالبان اور امریکا کے ساتھ ان ہی مراتب کا لحاظ رکھنا ہوگا ۔ اگر پاکستان نے طالبان یا افغانستان اسلامی امارت کو وہ مرتبہ نہیں دیا جس کے وہ حقدار ہیں تو ہم افغانستان میں اپنے پرانے دوستوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے ۔ مذکورہ معاہدے کے بعد اب اہم مرحلہ خود افغانوں کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات ہیں۔ امریکا کی خواہش ہوگی کہ اس کے کٹھ پتلی ہی حکومت میں رہیں اور اس کا بنایا ہوا سٹ اپ قائم رہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی یو۔ٹرن لینے کے ماہر ہیں۔