مغرب اور مغرب پرستوں کے ہولناک تضادات

548

 

 

مغرب اور مغرب پرستوں کی دنیا ہولناک تضادات سے اَٹی ہوئی دنیا ہے۔ لیکن مغرب اور مغرب پرست ’’تاثر‘‘ دیتے ہیں کہ تضادات انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے۔ زندگی اور اشیا کے بارے میں ان کا بیانیہ کامل ترین بھی ہے اور تضادات پاک بھی۔ لیکن آئے روز ایسے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو مغرب اور مغرب پرستوں کے ہولناک اور شرمناک تضادات کو ’’اشتہار‘‘ بنا کر ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔
مغرب دو صدیوں سے جن بتوں کی پوجا کررہا ہے ان میں سے ایک بُت ٹیکنالوجی کا بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کا نہ کوئی ’’مذہب‘‘ ہے اور نہ اس کا کوئی ’’اقداری نظام‘‘۔ ٹیکنالوجی کی نہ کوئی ’’قومیت‘‘ ہے نہ اس کا کسی خاص علاقے سے کوئی تعلق ہے۔ ٹیکنالوجی اپنی نہاد میں ’’آفاقی‘‘ ہے اور اسے کھلے دل سے قبول کیا جانا چاہیے۔ اس کی ’’مزاحمت‘‘ کا خیال بھی کسی کے دل میں نہیں آنا چاہیے۔ لیکن مغرب نے ٹیکنالوجی کے دائرے میں خود اپنے منہ پر تھوک دیا ہے۔ ذرا انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے کچھ حصے تو ملاحظہ کیجیے۔
’’امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے میونخ میں ناٹو کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یورپی ممالک نے چین کی کمپنی ’’ہواوے‘‘ کو اپنے یہاں 5G نیٹ ورک قائم کرنے کی اجازت دی تو ان کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5G ٹیکنالوجی چین کی خفیہ ایجنسی کا ہتھیار ہے۔ امریکا کے وزیر دفاع مارک ایسپر چین کی انٹیلی جنس ’’ناپاک حکمت عملی‘‘ کا ایک آلہ ہے۔ اس کے ذریعے چین مغربی ممالک کے ڈھانچے میں گھسنا چاہ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق برطانیہ اور فرانس نے کہا ہے کہ وہ ’’ہوا وے‘‘ کے سلسلے میں محتاط رہیں گے مگر 5G نیٹ ورک پر پابندی نہیں لگائیں گے۔ خبر کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپی ممالک باالخصوص برطانیہ کے اس رویے پر سخت اشتعال میں ہیں۔‘‘ (دی نیوز کراچی 16 فروری 2020)
مغربی دنیا گزشتہ تین سو سال سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں پوری دنیا کی قیادت کررہی ہے۔ چناں چہ اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں جو بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ مغرب کے غلبے کا ایک عکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کہتا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مزاحمت کا خیال بھی احمقانہ ہے مگر اب اتفاق سے چین کی صورت میں مغرب کا ایک ایسا حریف پیدا ہوگیا ہے جس نے بعض شعبوں میں مغرب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیلولر ٹیکنالوجی اپنی اصل میں مغربی ٹیکنالوجی ہے مگر چین نے 5G ٹیکنالوجی متعارف کراکے اس دائرے میں مغرب کو مات دے دی ہے۔ چناں چہ مغرب کے امام امریکا نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے سلسلے میں مغرب کے دیرینہ روایتی موقف پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ امریکا کہہ رہا ہے مغربی ٹیکنالوجی ’’زندہ باد‘‘ چینی ٹیکنالوجی ’’مردہ باد‘‘۔ مغرب ٹیکنالوجی کو ترقی دے تو یہ ترقی ’’ترقی‘‘ ہے۔ چین ٹیکنالوجی کو ترقی دے تو اس کی ٹیکنالوجی ’’جاسوسی کی ٹیکنالوجی‘‘ ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں 5G ٹیکنالوجی سے مغرب کی جاسوسی کرے گا مگر سوال یہ ہے کہ مغرب مدتوں سے 3G اور 4G کے ذریعے پوری دنیا کے ساتھ کیا کررہا ہے؟ مغرب ہی کے خبر رساں ادارے رائٹر کی ایک خبر کے مطابق امریکی سی آئی اے اور جرمنی کی خفیہ ایجنسی نے سوئٹزر لینڈ کی کمپنی crypto-AG کے ذریعے پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے درجنوں ممالک کی جاسوسی کی ہے اور ان ملکوں کی انتہائی حساس معلومات حاصل کی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی اطلاع کے مطابق یہ کمپنی اصل میں سی آئی اے کی ملکیت تھی۔ پہلے سی آئی اے نے اس کمپنی کے ذریعے درجنوں ممالک کو مخصوص ٹیکنالوجی فراہم کرکے اربوں ڈالر کمائے اور پھر اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ان ممالک کی حساس اطلاعات تک رسائی حاصل کی۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ 12 فروری 2020ء)
لیکن سی آئی اے ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا کی جاسوسی کرے تو ٹیکنالوجی اچھی ہے، عہد حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، مگر چین ٹیکنالوجی کے کسی شعبے میں مغرب سے آگے نکل جائے تو ٹیکنالوجی ’’حرام‘‘ ہوجاتی ہے اور امریکا تمام یورپی ممالک پر دبائو ڈالتا ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی سے دور رہیں۔ کیا یہ رویہ ’’سائنس دشمن‘‘ اور ’’ٹیکنالوجی دشمن‘‘ رویہ نہیں؟۔ مغرب کا یہ رویہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی سے مخصوص نہیں۔ جدید مغرب آزاد تجارت اور منڈی کی معیشت کا قائل ہے۔ یہ دونوں تصورات لبرل ازم کے بنیادی تصورات کا حصہ ہیں۔ مغرب ساری دنیا کو ڈیڑھ سو سال سے ’’آزاد تجارت‘‘ کا ’’درس‘‘ دے رہا ہے۔ مگر چین بڑی معاشی طاقت بن کر اُبھرا تو مغربی دنیا کے فکری اور معاشی امام امریکا نے آزاد تجارت کے تصور پر بھی تھوک دیا۔ اس نے چینی درآمدات پر 300 ارب ڈالر سے زیادہ کے محصولات عاید کردیے۔ حالاں کہ محصولات کی تجارت آزاد تجارت کے تصور کی ضد ہے۔ لیکن چوں کہ امریکا کو چین کے ساتھ تجارت میں تقریباً ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے اس لیے امریکا نے چینی مصنوعات پر محصولات عاید کرکے انہیں امریکا میں اتنا مہنگا بنادیا کہ امریکی عوام چین کی مصنوعات خرید ہی نہ سکیں۔ اگر یہی کام پاکستان یا کوئی اور ترقی پزیر ملک کرتا تو امریکی کہتے تم آزادانہ تجارت کے مسلمہ بین الاقوامی اصول کی خلاف ورزی کررہے ہو۔ چناں چہ بین الاقوامی برادری میں تمہارا حقہ پانی بند ہونا چاہیے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ امریکا محصولات کی تجارت کرے تو ’’حلال‘‘ ہے، دنیا کا کوئی غریب ملک یہ کرے تو محصولات کی تجارت ’’حرام‘‘ ہے۔ واہ کیا ایمانداری ہے؟ کیا انصاف ہے؟۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ پوری مسلم دنیا مغرب کا سیاسی نظام استعمال کررہی ہے۔ مغرب کا معاشی ماڈل اپنائے ہوئے ہے، مغرب کا لباس پہن رہی ہے، مغرب کی موسیقی سن رہی ہے، مغرب کی غذائیں کھا رہی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ’’عالمگیریت‘‘ کا حصہ ہے۔ جیسا کہ مغرب سے 3الفاظ اور معنی مستعار لے کر کہا جاتا ہے دنیا ایک ’’عالمی گائوں‘‘ بن گئی ہے۔ چناں چہ اگر ہم مغرب کا لباس پہن رہے ہیں اور مغرب کی غذائیں کھا رہے ہیں تو یہ جدید رجحانات کے عین مطابق ہے۔ مگر آپ کو معلوم ہے حال ہی میں کیا ہوا؟۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی اور وہائٹ ہائوس کی سینئر ایڈوائزر ایوانکا ٹرمپ نے دو ہفتے قبل دبئی میں ہونے والے گلوبل وومینز فورم میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے شیخ زید جامعہ مسجد کا بھی دورہ کیا۔ غضب یہ ہوا کہ انہوں نے موقع کی مناسبت سے مسلم خواتین کا لباس زیب تن کرلیا بلکہ وہ ایک تصویر میں باحجاب بھی نظر آئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر ایوانکا کے خلاف زبردست ردعمل سامنے آیا۔ ٹرمپ کے حامی امریکیوں نے کہا کہ ایوانکا کو مسلمانوں کے رسوم و رواج اپنانے کے بجائے اپنے والد سے اسلاموفوبیا پر بات چیت کرنی چاہیے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 18 فروری 2020ء)
مسلم دنیا میں سب سے پہلے مغربی لباس کا استعمال مردوں نے شروع کیا تھا مگر اب کم و بیش اکثر مسلم ممالک میں لڑکیاں بھی مغربی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس صورتِ حال کو اب ہمارے ’’معمولات‘‘ میں شامل سمجھا جاتا ہے اور اس پر کسی حلقے کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ اب تو مسلم معاشروں میں مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ماڈل گرلز ’’ریمپ‘‘ پر بے باک ’’واک‘‘ کرتی ہیں اور ہمارے ٹیلی ویژن چینلز کہتے ہیں کہ ریمپ پر ماڈل گرلز نے اپنے ’’جلوے‘‘ بکھیرے۔ اہم بات یہ ہے کہ عام لوگ کیا ہمارے مولوی ملّا تک اس صورتِ حال پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے مغربی کلچر کی ’’عالمگیریت‘‘ کو قبول کرلیا ہے مگر مغرب کا حال یہ ہے کہ ایوانکا ٹرمپ نے مسجد کے دورے کے موقع پر مسلم خواتین کا لباس زیب تن کرلیا تو اس پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اگر ایوانکا کو مسلم لباس پسند آجائے اور وہ اس کو اس طرح عام زندگی میں بھی زیب تن کرنے لگیں جس طرح ہماری لاکھوں خواتین مغربی لباس کو عام زندگی میں زیب تن کرتی ہیں تو نہ جانے ایوانکا کے ساتھ کیا ہو؟۔
مغرب خود ہولناک تضادات کا شکار ہے تو مسلم دنیا کے مغرب پرستوں کو بھی گہرے تضادات کا شکار ہونا ہی تھا۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال بنگلادیش کی بدنام زمانہ تسلیمہ نسرین کا حالیہ ٹوئٹ ہے۔ مذہبی لوگوں میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ بھارت کے ممتاز موسیقار اے آر رحمن ہندو ازم ترک کرکے مسلمان ہوئے ہیں۔ وہ خود نہ صرف یہ کہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں بلکہ ان کی ایک دختر نیک اختر خدیجہ برقع اوڑھتی ہے۔ تسلیمہ نسرین نے اس حوالے سے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ انہیں اے آر رحمن کی موسیقی بہت پسند ہے مگر جب وہ ان کی بیٹی خدیجہ کو برقعے میں دیکھتی ہیں تو ان کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
تسلیمہ نے لکھا کہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ’’cultured Family‘‘ میں بھی کس طرح لڑکیوں کو ’’برین واش‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ خدیجہ نے اس ٹوئٹ کا بہت اچھا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ برقع میری ’’Choice‘‘ ہے۔ میں اپنی زندگی خدا کے احکامات کے مطابق بسر کرنا چاہتی ہوں۔ خدیجہ نے کہا کہ تسلیمہ کو گوگل کرکے تحریک نسواں کے معنی سے آگاہ ہونا چاہیے۔ تحریک نسواں عورت کی ’’Choice‘‘ کو اہمیت دیتی ہے۔ اس نے کہا کہ میرے پردے کے سلسلے میں آپ میرے والد کو کیوں درمیان میں لاتی ہیں۔ اس نے کہا کہ بھارت میں نہ جانے کیا کچھ ہورہا ہے مگر لوگوں کو وہ کچھ نظر نہیں آرہا۔ ان کی نظر صرف میرے برقعے پر ٹکی ہوئی ہے۔ (دی نیوز کراچی۔ 16 فروری 2020ء)
خدیجہ کا جواب بجائے خود بہت شاندار ہے مگر چند امور ایسے ہیں جن پر مزید گفتگو ممکن ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب پسندوں کے نزدیک مسلم معاشروں اور مسلم خاندانوں میں پیدا ہونے کے باوجود مغرب ان کی پسند یا ان کی ’’Choice‘‘ ہوسکتا ہے۔ مگر مسلم معاشروں اور مسلم خاندانوں میں پیدا ہونے والے لوگ مذہب سے گہرے طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں تو مغرب پسند نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ تو سیدھی سیدھی ’’برین واش‘‘ کی واردات ہے۔ حالاں کہ برین واش کا اصل شکار مسلم دنیا کے مغرب زدگان یا مغرب پسند ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے لیے کوئی روحانی، جذباتی یا نفسیاتی واردات نہیں، اس کے باوجود مسلم معاشروں میں مغرب زدگان موجود ہیں۔ اسلام مسلم معاشروں میں آج بھی ایک روحانی، اخلاقی، جذباتی اور نفسیاتی واردات ہے مگر مسلم نوجوان نماز روزے کے پابند ہوجائیں یا جہادی جذبے سے سرشار نظر آئیں تو کہا جاتا ہے کہ ان کا برین واش کیا گیا ہے۔ خدیجہ کا قصہ یہ ہے کہ اس کے لیے پردہ ہی نہیں پورا اسلام ہی ایک ’’Choice‘‘ ہے۔ وہ ’’پیدائشی مسلمان‘‘ نہیں، وہ ’’شعوری مسلمان‘‘ ہے۔ مگر اس کے باوجود اسے برقعے میں دیکھ کر تسلیمہ نسرین کا دم گھٹنے لگتا ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ خود تسلیمہ کی زندگی اور خیالات ’’برین واشنگ‘‘ کا نتیجہ ہیں۔