محمد یوسف منصوری
امریکا نے پوری دُنیا میں اپنا قبضہ جمانے کے لیے فوجی معاہدے کر رکھے۔ منیلا سے خبر آئی ہے فلپائن کی حکومت نے امریکا سے دفاعی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں خطے میں امریکی مفادات کو دھچکا لگا ہے۔ یہ معاہدہ 20 سال پہلے ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کو فلپائن کے قوانین سے استثنا حاصل تھا۔ وہ ویزہ اور پاسپورٹ کے بغیر فلپائن آجاسکتے تھے۔ فلپائن کے وزیر خارجہ نیو ڈور ویوکسین نے امریکی سفارت خانے کو معاہدہ ختم کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ اس کے بعد 180 روز میں یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا۔
فلپائن ہمیشہ سے امریکی مفادات کا ترجمان رہا ہے اور مورو کے مسلمانوں کے لیے امریکی کے کہنے پر مظالم کرتا رہا ہے اور اس کی زندگی کے ہر دائرے میں ایشیائی کے بجائے امریکی ثقافت نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک فلپائن کے لوگوں کو بڑی تعداد میں ملازمت دیتے رہے ہیں۔ مگر اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے فلپائن کے اس اقدام کو خطرناک فیصلہ قرار دیا ہے۔ وہ چین پر بین الاقوامی اصولوں کی پابندی کے لیے دبائو بڑھا رہا ہے اور ایشیائی ممالک کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔
اب امریکا کو ہر علاقے سے غیر منصفانہ فوجی معاہدوں سے دستبردار ہونا پڑے گا اور اس نے پوری دنیا پر غلبہ کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ مسلسل ناکافی سے دوچار ہوگا اور دنیا امن و چین سے رہ سکے گی۔ یورپی یونین نے بھی فلسطین پر صدی کے امن منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ وادی اردن پر قبضہ کرنے کے پروگرام کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح امریکی صدر کے فلسطین کے بارے میں متنازع امن منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے ساری امریکی مخالف قوتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ دنیا امریکی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکے اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل
کرسکے بلکہ مظلوم اقوام کو امریکی ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے اپنا علیحدہ مشترکہ پلیٹ فارم بنانا چاہیے۔ اسی طرح جرأت اور ہمت کے ساتھ فیصلے کرنے سے آئندہ چند سال میں تیسری دنیا کی ایک موثر قوت بن سکے گی اور انسانیت کو بڑی اقوام کی لوٹ گھسوٹ سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں گے۔ اب تو دنیا کو ویٹو پاور کے بارے میں آواز اُٹھانی چاہیے کہ مخصوص اقوام کو یہ اختیار دے کر پوری انسانیت کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ دیگر بڑی علاقائی قوتوں کو یہ اختیار دیا جائے تا کہ توازن قائم ہوجائے اور خاص طور پر اُمت مسلمہ کو یہ حق دیا جائے تاکہ کشمیر، فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر مسائل پر امت قدم اُٹھا سکے۔ یہ حق انڈونیشیا، ترکی یا پاکستان کو دیا جائے۔200302-03-10
امریکی زوال کا آغاز
محمد یوسف منصوری
امریکا نے پوری دُنیا میں اپنا قبضہ جمانے کے لیے فوجی معاہدے کر رکھے۔ منیلا سے خبر آئی ہے فلپائن کی حکومت نے امریکا سے دفاعی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں خطے میں امریکی مفادات کو دھچکا لگا ہے۔ یہ معاہدہ 20 سال پہلے ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کو فلپائن کے قوانین سے استثنا حاصل تھا۔ وہ ویزہ اور پاسپورٹ کے بغیر فلپائن آجاسکتے تھے۔ فلپائن کے وزیر خارجہ نیو ڈور ویوکسین نے امریکی سفارت خانے کو معاہدہ ختم کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ اس کے بعد 180 روز میں یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا۔
فلپائن ہمیشہ سے امریکی مفادات کا ترجمان رہا ہے اور مورو کے مسلمانوں کے لیے امریکی کے کہنے پر مظالم کرتا رہا ہے اور اس کی زندگی کے ہر دائرے میں ایشیائی کے بجائے امریکی ثقافت نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک فلپائن کے لوگوں کو بڑی تعداد میں ملازمت دیتے رہے ہیں۔ مگر اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے فلپائن کے اس اقدام کو خطرناک فیصلہ قرار دیا ہے۔ وہ چین پر بین الاقوامی اصولوں کی پابندی کے لیے دبائو بڑھا رہا ہے اور ایشیائی ممالک کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔
اب امریکا کو ہر علاقے سے غیر منصفانہ فوجی معاہدوں سے دستبردار ہونا پڑے گا اور اس نے پوری دنیا پر غلبہ کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ مسلسل ناکافی سے دوچار ہوگا اور دنیا امن و چین سے رہ سکے گی۔ یورپی یونین نے بھی فلسطین پر صدی کے امن منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ وادی اردن پر قبضہ کرنے کے پروگرام کی مخالفت کی ہے۔ اسی طرح امریکی صدر کے فلسطین کے بارے میں متنازع امن منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے ساری امریکی مخالف قوتوں کو اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ دنیا امریکی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکے اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل
کرسکے بلکہ مظلوم اقوام کو امریکی ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے اپنا علیحدہ مشترکہ پلیٹ فارم بنانا چاہیے۔ اسی طرح جرأت اور ہمت کے ساتھ فیصلے کرنے سے آئندہ چند سال میں تیسری دنیا کی ایک موثر قوت بن سکے گی اور انسانیت کو بڑی اقوام کی لوٹ گھسوٹ سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں گے۔ اب تو دنیا کو ویٹو پاور کے بارے میں آواز اُٹھانی چاہیے کہ مخصوص اقوام کو یہ اختیار دے کر پوری انسانیت کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ دیگر بڑی علاقائی قوتوں کو یہ اختیار دیا جائے تا کہ توازن قائم ہوجائے اور خاص طور پر اُمت مسلمہ کو یہ حق دیا جائے تاکہ کشمیر، فلسطین اور عالم اسلام کے دیگر مسائل پر امت قدم اُٹھا سکے۔ یہ حق انڈونیشیا، ترکی یا پاکستان کو دیا جائے۔