عمران خان کی بہت سی خوبیاں بیان کی گئی تھیں، مقصد یہ تھا کہ کسی طرح قوم کو دو سیاسی جماعتوں کے متبادل کی راہ دکھائی جائے، عمران خان کی خوبیاں بیان کرنے والوں کے دل میں ان کے لیے قطعاً محبت نہیں تھی بس وہ تو متبادل دینا چاہتے تھے، انہیں قدرے سب کچھ علم تھا مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اس قدر خرابی ہوگی۔ اب بھی یہی کہا جارہا ہے کہ اس حکومت میں صرف عمران خان ہی ہیں، باقی سب کچرا ہے، ایک کالم نگار جنہیں، خلیفہ کہا جاتا ہے، نے بہت زیادہ بلکہ بڑھ چڑھ کر ان کی مارکیٹنگ کی تھی، بہر حال اب وہ بھی مایوس ہیں۔ ملک میں انتخابی موسم تھا، جلسے جلوسوں کی بہار تھی، الیکڑونک میڈیا کی ہر اسکرین زمان پارک سے بنی گالہ تک کے گن گار رہی تھی، ہر خوبی بیان کی جارہی تھی ڈھونڈ، ڈھونڈ کر مثالیں دی جاتی رہیں، لیکن اب وہی الیکٹرونک میڈیا مذاق اڑا رہا ہے لیکن حکومت کی توجہ پھر بھی اسی جانب ہے۔ سرکار کے اشتہارات کا ستر فی صد بجٹ اس کے لیے مختص ہے اور یہی میڈیا اپنے ملازمین کو فارغ کر رہا ہے اور اخبار نویسوں سے قبرستان آباد ہورہے ہیں، جناب ادریس بختیار سے لے کر فصیح الرحمن تک کیسے کیسے اجلے چہرے زمین میں دفن ہوچکے ہیں۔ اخبار نویس مر بھی رہے ہیں، جو حیات ہیں وہ ساتھیوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں، جس گھر سے ایک ایسے اخبار نویس کا جنازہ اٹھ جائے کہ جسے اس کے کام کا معاوضہ تک نہیں ملا تھا، اس گھر کے جذبات صرف لواحقین ہی جانتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکتا۔ ایک صحافتی ادارہ ایسا بھی ہے جہاں ایک سال ہونے والا ہے کہ تنخواہ نہیں ملی، ہمیں معلوم نہیں کہ صحافتی یونینز، پی ایف یو جیز، کہاں ہیں؟ سب اپنی بقاء کی فکر میں ہیں، پرنٹ میڈیا سسک رہا ہے، ایک گروہ ہے جو ابھی بھی مزے میں ہے۔ اے پی این ایس ایک پلیٹ فارم ہے، مگر یہ دریا کے پل کے ستون کی مانند کھڑا ہے، جس کے گرد زمانے کا پانی بہہ رہا ہے اور بہے چلا جارہا ہے، اور بہتا رہے گا مگر ستون وہیں کا وہیں ہے، ایک رائے ہے، غلط بھی ہوسکتی ہے درست بھی کہ چھوٹے اخبارات کو ووٹ کا حق دے کر ان کے ذریعے مخصوص گروہ کے لیے مسندیں حاصل کی جارہی ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ قدرت نے پاکستان کو بارہ موسم دیے ہیں، مان لیتے ہیں کہ زبان لڑکھڑا گئی، حسن ظن بھی کچھ ہوتا ہے، لیکن اس کا کیا کریں جو کچھ میڈیا انڈسٹری کے ساتھ ہورہا ہے اور ہونے جارہا ہے، ملک میں ایک میڈیا انڈسٹری نہیں، سب پریشان ہیں، روزگار کے راستے سکڑ اور باب بند ہو رہے ہیں، ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، ڈیڑھ پونے دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے باقی وقت بھی اسی طرح گزر جائے گا، قوم کا وہ حصہ اور طبقہ جو پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا وہ وہیں کھڑا ہے، جو نواز شریف کا دم بھرتا ہے وہ بھی اپنی جگہ کھڑا ہے، اگر یہی سچ ہے تو پھر تبدیل کیا ہوا؟ اِس وقت یہ سلگتا ہوا سوال، جس نے ہر زبان پر چھالے ڈال دیے ہیں کہ ڈیڑھ سال ہو گئے ہیں مگر کامیابی دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسا کیوں ہے؟ شہباز شریف نے موچی گیٹ جلسے میں کہا تھا کہ پیٹ پھاڑ کر زرداری سے دولت نکالوں گا، جب وقت آیا تو پائوں پڑ کر جان چھڑائی اور جاتی عمرہ میں ان کا استقبال کیا، تحریک انصاف کے عمران خان نے کہا تھا کہ چوروں اور ڈاکوئوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے گی… کابینہ پر نظر ڈالیں، تو حقائق سامنے آجاتے ہیں کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر حکمران کو فواد حسن فواد مل جاتا ہے، یہ چہرے محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس بھی تھے، وہاں سے ہوتے ہوئے مسلم لیگ میں پہنچے اور اب تحریک انصاف میں ہیں… ایوب خان نے بھی احتساب کیا تھا، اور لکیر کھینچ دی تھی، لوگ ڈر گئے تھے، مگر کیا ہوا؟ اعلان کردیا گیا کہ جو ہمارے ساتھ وہ کلین چٹ کا حق دار ہوگا… احتساب تو جنرل ضیاء الحق نے بھی کیا تھا، جب انتخابات ہوئے وہی چہرے اسمبلی میں پہنچ گئے تھے، پھر جنرل مشرف آگئے، پھر احتساب ہوا، نیب متحرک ہوگیا، نیب کی ساری کہانی یہاں آکر ختم ہوگئی کہ پناہ چاہیے تو قاف لیگ میں آجائو،… اب بھی احتساب ہو رہا ہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوا۔
وزیر اعظم کندیاں گئے، اعلان کیا کہ جنگلات کاٹنے والوں کو جیل میں ڈالو، نجانے وہ یہ بات کسے کہہ رہے ہیں، بائیس کروڑ عوام میں کسی کو پتا چل جائے تو ہمیں بھی بتا دے، وزیر اعظم سے عرض ہے کہ جنگلات پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں اور بن رہی ہیں، شاملاٹوں پر ٹاور اگ رہے ہیں، تحریک انصاف کے دور میں بھی شہریوں کے پلاٹوں پر قبضے ہورہے ہیں۔ لاہور جا کر معلوم تو کریں تو ٹائون شپ میں جعلی کاغذات بنا کر کس نے کس کے پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان میں اکثریت سرکاری ملازمین کی ہے۔ حکومت بزدار صاحب کی ہو یا شہباز شریف کی سب ایک پیج پر ہیں۔ ان سب کو علم ہے کہ قبضہ مافیا کون ہے مگر ہاتھ نہیں ڈال سکتے کہ ان کے سرپرست طاقت ور سیاسی شخصیات ہیں۔ چلیے آپ تو کے پی کے کو ایک ماڈل صوبہ بنانے چلے ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نیت میں کھوٹ نہیں مگر ذرا معلوم تو فرمائیں کہ مالم جبہ ریزورٹ لیز اسیکنڈل میں کس کا نام ہے لیز پالیسی تبدیل کرکے محکمہ جنگلات کی 270 ایکڑ زمین پر کون قابض ہے، یہ کیس میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو کی کہانی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ بیوروکریسی سیاسی اثرات سے پاک ہوجائے، درست ہے مگر معلوم تو کریں کہ آج کل ترقی کے لیے نام کے ساتھ کس لفظ کا اضافہ ضروری سمجھا جارہا ہے بس خاص بیورو کریٹس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بس جب تک سرپرستی میسر ہے، عمران خان زندہ باد ہی کہا جائے گا۔