شبانہ ایاز
ہر سال 8 مارچ یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ دن دراصل نیویارک، امریکا کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں بہت کم اجرت پر بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے والی خواتین ورکرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جو مسلسل استحصال سے تنگ آکر بالآخر 8 مارچ 1907 کو سڑکوں پر نکل آئیں، انہوں نے صنفی امتیاز، عدم مساوات کے خلاف، اوقات کار میں کمی، اجرت میں اضافے کے لیے بھرپور مظاہرے کیے۔ جواباً ان پر وحشیانہ تشدد اور لاٹھی چارج ہوا، متعدد گرفتار کرلی گئیں۔ مگر ان کی جدوجہد جاری رہی۔
یہ دن معاشرے کی باصلاحیت خواتین کی خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ جہاں باصلاحیت خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے اپنا لوہا منوایا اور عورت ذات کا نام روشن کیا۔
غریب اور ان پڑھ، محنت مزدوری کرنے والی خواتین تو سرے سے ہی اس دن سے ناواقف ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ مغربی دنیا نے ان کے مسائل سے آگہی اور محنت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے عالمی دن مختص کر رکھا ہے۔ ان خواتین سے ہٹ کر ایک طبقے کی خواتین یہ دن پورے جوش و جذبے سے مناتی ہیں۔ یہ خواتین یا تو ہر معاشی فکر سے بے پروا، ایلیٹ کلاس سے منسلک ہیں یا بڑی عمر کی خواتین جو خاندان کے جھمیلوں سے آزاد ہیں۔یا وہ نوجوان غریب ومتوسط طبقہ کی خواتین جو پڑھ لکھ کر آزادی حقوق نسواں کی تنظیموں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی وہ آزاد صنف نازک ہیں جو خود کو صنف نازک کہلانے سے نفرت کرتی ہیں یا اپنی روایات و اقدار کو فراموش کرکے کسی نئی دنیا کی تلاش میں نکلی ہیں۔ مغربی خواتین کی آزادی سے متاثرہ خواتین اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ جس راستے کی تلاش میں یہ نکلی ہیں اس کی منزل اولڈ ہوم تک جاتی ہے۔
پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ جن خواتین نے آزادی کے لیے عورت مارچ کیا،مردوں کو اپنے حقوق کا غاصب قرار دیا،احتجاجاً ہر اس کام کی نفی کی جو عورت کو اس کی معراج تک لے جاتا ہے۔ان خواتین کے یہ سارے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ آزاد ہیں ہر قسم کی بات اور عمل کرنے کے لیے، اب اور کونسی آزادی ہے جس کی وہ طلب گار ہیں۔۔۔؟؟
آزادی مگر کس سے۔۔؟؟ روایات سے، معاشرتی اقدار سے، گھر سے، اپنے عورت پن سے، اپنے خمیر میں بے پناہ خدمت اور محبت کے جذبے سے، رشتوں کی زنجیر سے، مرد کے تحفظ سے، اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے سے۔
یوم خواتین میں پاکستانی خواتین کے اصل مسائل کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ کاروکاری، ونی،وٹہ سٹہ، قرآن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصہ، بچیوں سے جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی، علاج معالجے کی مناسب سہولیات اور نان نفقہ جیسے معاملات، پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے پورشن بڑھانے، دفاتر کے ساتھ ڈے کئیر سینٹر بنانے اور اہم پوزیشنز پر عورتوں کی تقرری۔
آج کی عورت ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے۔ ملک عزیز کی ان گنت خواتین دنیا کے لیے قابل تقلید مثال ہیں۔ انہوں نے یہ مقام اور مرتبہ اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے حاصل کیا، اس کے لیے انہیں دوپٹہ اتارنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ صنف مخالف پر طعنہ زنی کی۔
یہ جو ہر سال چند سو عورتیں،عورتوں کے حقوق کی علمبردار بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں،انہیں اپنی توانائیاں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں پر لگانی چاہیے۔ کسی مفلس خاتون کی زچگی اور علاج معالجے کا بوجھ اٹھالیں۔ غریب بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کردیں۔ یہ خالی خولی چیخ و پکار اور بلاوجہ کی محاذ آرائی سے کیا حاصل ہوگا،کچھ کرنا ہی ہے تو عورت کے مفاد میں کچھ کریں۔
عورت کو اپنا وقار بہر صورت برقرار رکھنا ہو گا۔ عالمی یوم خواتین ہو یا اور کوئی بھی دن، ہمیں مردوں سے لڑ کر، انہیں ظالم ٹہرا کر،غلط ثابت کرکے کیا حاصل کرنا ہے۔ مرد کا ایک روپ نہیں ہے،مرد باپ ہے، بھائی ہے، شوہر اور بیٹا ہے۔ جس طرح عورت ہر رشتے میں قابل احترام ہے،اسی طرح مرد کے سب روپ قابل تعظیم ہیں۔عورت عزت دے گی تو اسے بھی عزت ملے گی۔
جب اسلام نے بہت واضح طور پر مرد عورت کے حقوق اور فرائض کا تعین کردیا ہے تو اس کے بعد ایک دوسرے کو اس کے حقوق و فرائض بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی،خواتین کو اس دن مردوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ وہ مردوں کی حریف نہیں حلیف بن کر ساتھ چلنا چاہتی ہیں تاکہ ملک کی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا سکے۔ ناحق تصادم کی فضا کسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں عورت مارچ کے نام پر ہونے والی شدت پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے،یہ کسی کے لیے فیشن سہی مگر ہماری عام عورتوں کے حقوق کے قتل کا سامان ہے۔