عورت نے ہر ایک دور میں قوموں کو نکھارا

431

قدسیہ ملک
بہت سی دعاؤں، آرزوؤں اور امیدوں کے درمیان جب پل کر جوان ہوئی تو ماں کو رشتے کی فکر ستانے لگی۔ فکر کیوں نہ ہوتی۔ آخر کو عورت ذات تھی۔ پرائے گھر کی ہونا تھا۔ باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ماں کے دل کا نور۔ بڑے چاؤ محبتوں میں پل کر جوان ہوئی تھی۔ ماں کے سامنے اپنی جوانی کے سبھی واقعات ایک ایک کرکے ذہن میں آتے تھے۔ واقعی اس کا شوہر ایک نفیس، باکردار، خوش اخلاق اور ذمے دار مرد تھا۔ جس نے بیوی اور ماں کے حقوق کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی بہت احسن انداز میں تربیت کی تھی۔ بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں اس کے زیادہ لاڈ مت اٹھایا کیجیے، ماں فکرمندی کے عالم میں باپ کو سمجھاتی۔ ارے میری بیٹی بہت سمجھدار ہے تم دیکھنا جہاں بھی جائے گی گھر کا نام روشن کرے گی۔ اور پھر ماں دن بھر کی داستان کے ساتھ کچھ رشتے بھی بتاتی جاتی۔ جنہیں باپ کچھ ڈر کچھ خوف کچھ سوچتے ہوئے رد کردیتا۔ بالآخر دونوں ایک رشتے پر راضی ہوگئے لڑکا بھی کچھ پڑھا لکھا تھا۔ اپنا کاروبار تھا۔ تین مہینے میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔
سب کچھ بالکل صحیح چل رہا تھا۔ بس آنا جانا تھوڑا مشکل تھا سو ماں باپ بھی چپ رہے کہ لڑکیاں اپنے سسرالوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ اچانک ایک دن بیٹی کے سسرال سے فون آیا تیری بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ ماں نے سینہ پیٹ لیا۔ باپ کو چپ لگ گئی۔ نہیں میری بیٹی ایسا نہیں کرسکتی۔ وہ دونوں روتے دھوتے بیٹی کے سسرال گئے۔ سسرال والوں کا رویہ بہت ہتک آمیز تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا شوہر کے ہوتے ہوئے کسی کے ساتھ بھاگ جانا سراسر رسوائی ہے۔ میں تو پہلے سال ہی سمجھ گئی تھی لیکن کچھ نہ کہتی تھی اب دیکھا کیا انجام ہوا تربیت کی تھی۔ ہائے میرے بیٹے کی تو زندگی برباد ہوگئی۔ اس نامراد کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔
یہ کہتے ہوئے ساس نے چھوٹی چار سالہ نازش کو نانی کی طرف اچھالا۔ وہ سہم کر اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگی جو منہ بسور کر گھر سے باہر نکل گیا۔ نانی ننھی نواسی کو آنکھوں میں آنسو اور دل میں کرب لیے خاموشی سے اپنے ساتھ لے آئی۔ باپ نے دوسرے دن تھانے میں بیٹی کی رپورٹ درج کروادی۔ بابا تیری بیٹی بھاگ گئی ہے۔ ہم نے اس کے سسرال جاکر پوچھا تھا۔ دوسرے دن تھانے آنے پر دور ہی سے تھانے دار نے اسے صدا لگائی۔ نہیں ساب جی میری بچی ایسی نہیں تھی۔ میں یہ نہیں مان سکتا۔ آپ اس کے شوہر سے پوچھیں وہ سب بتادے گا میں آپ سے سچ کہتا ہوں یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اس کے باپ نے روتے ہوئے تھانیدارسے التجا کی۔ او بابا گھر جاؤ ایس پی ساب راؤنڈ پر ہیں۔ اور باپ کچھ سوچتے ہوئے خاموشی سے تھانے سے باہر آکھڑا ہوا۔ ایس پی کی گاڑی رکتے ہی غموں کا مارا باپ بیٹی کا غم سنانے لگا اس کی التجا میں اس قدر سوز تھا کہ ایس پی فوری متعلقہ علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے شوہر کو گرفتار کرلیا۔ تھانے پہنچ کر دو چار چھترول لگتے ہی اس نے سچ اگل دیا۔ وہ بیٹی سسرال والوں کے ظلم و ستم کا ایسا نشانہ بنی کہ لاش بھی ٹکڑے کرکے گھر کے قریب زیرتعمیر مکان میں دفنائی گئی تھی۔
کم جہیز لانے پر روز طعنے سننے کے باوجود والدین سے کبھی کچھ نہ کہا تھا۔ لیکن قدرت کو شاید اس ظالم خاندان کے ظلم کا پردہ فاش کرنا تھا۔ جبھی تو باپ کے دل میں ربّ نے یہ بات ڈالی۔ یہ واقعہ ایک سال پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے میں پیش آیا۔ پچھلے ہفتے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے زیادتی کے بعدقتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا۔ ایس پی گلشن غلام مرتضیٰ نے بتایا مسمات کنیز زوجہ نذیر حسین نے سی پی ایل سی کو اطلاع دی اس کے شوہر کا ذہنی توازن درست نہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر چلاگیا ہے۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں۔ جن میں سے تین بیٹیاں یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں صرف ایک آٹھ سالہ بیٹی بچی تھی۔ اس عورت کے شوہر کا ایک چچا زاد جو اس کے گھر آتا رہتا تھا۔ اس دن بھی بچی کو ٹافی دلانے کا بہانہ کرکے لے گیا۔ دو دن بعد اس کا فون آیا کہ ایک لاکھ روپے کا بندوبست کردو ورنہ بچی کو مار دوں گا۔۔ اس کے فون کے دو دن بعد کچرے کے ڈھیر سے بچی کی تعفن زدہ لاش ملی۔ جسے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چودہواں میں 16 سالہ لڑکی پر ذاتی دشمنی کے باعث معصوم لڑکی سے عبرتناک، شرمناک انتقام سے کون واقف نہیں۔ اخبارات کے مطابق ظلم کا یہ رقص مخالف خاندان کی لڑکی پر پورے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
آج کے ہمارے معاشرے میں انسانیت کی یہ تحقیر بہت تیزی کے ساتھ اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہی ہے۔ کہیں عورت اس ظلم کی چکی میں مرد کے ہاتھوں پستی ہے تو کہیں مرد مرد کے ہاتھوں مظلوم اور ظالم کا کردار ادا کرتا ہے تو کہیں یہ مرد عورت کے ہاتھوں مظلوم ہے۔ میری اور آپ کی آنکھیں آئے روز کسی اخبار، کسی چینل، کسی خبر میں انسانیت کا جنازہ اٹھانے کا منظر دیکھتی رہتی ہیں۔ فائزہ الیاس ڈان اخبار میں لکھتی ہیں پاکستان میں ہر سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی خاتون گھریلو تشدد (domestic violence) کا شکار ہوجاتی ہے۔
(جاری ہے)
قدیہ ملک
آغا خان ہسپتال کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ قومی صحت و سائنس سیپوزیم سے خطاب میں ڈاکٹر تزئین سعید علی نے کہا ہے کہ گھریلو تشدد کے باعث عورت کی طبعی اور ذہنی کیفیت مکمل یا جزوی طور پر شدید متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ مشہور ابلاغی محقق ڈاکٹر نثار احمد زبیری اپنی کتاب ابلاغ عامہ افکار و نظریات میں لکھتے ہیں ذرائع ابلاغ عامہ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن اور فلمیں تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہیں کہ ناظرین کو کوئی کام دکھا کر انہیں وہ کام کرنا سکھا دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک مشہور تحقیق سماجی محقق نیل ملر (Neal Miller) اور جان ڈولر (John Dollard) نے کی ہے۔ انہوں نے مشاہداتی آموزش کا نظریہ (Learning by Oberservation theory) پیش کیا جس میں اسے دیکھنے اور عمل کرنے کے نظریے کو واضح کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جتنا گہرا مشاہدہ ہوگا۔ اتنا تیزی سے عمل ہوگا۔ اس ضمن میں انہوں نے چند نکات پیش کیے۔ 1۔ جب پیغام میں دیکھنے کے لیے کچھ واضح طور پر موجود ہو۔ 2۔ جب مشاہدہ کرنے والے اپنے طور پر سیکھی ہوئی بات بیان کریں یا اس پر عمل کر کے دکھائیں۔ 3۔ پیغام متاثر اسی وقت ہوگا جب سیکھی ہوئی بات پر عمل کر کے دکھایا جائے۔ اب ہم پاکستانی معاشرے پر اس نظریے کی روشنی سے دیکھیں تو مقصد صاف واضح ہوجاتا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا اور بالعموم پرنٹ و سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر فعل و عمل کا تعلق اسی نظریے کی روشنی میں جانچنے کی چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ ان ڈراموں فلموں میں مجرم جرائم اور مجرمانہ ذہنیت کا پرچار جس تواتر سے ہوتا ہے ایک عام فرد کے نزدیک اس پر عمل کرنے کی قوت میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے جرم کی داستان، کرائم رپورٹنگ وغیرہ جیسے ڈرامے تواتر سے چینلوں پر نشر کیے جاتے ہیں۔
2۔ ہمارے پاکستانی ٹی وی چینلوں میں عورت کے لباس کو مختصر کرتے کرتے اتنا مختصر کیا جاچکا ہے۔ ان ڈراموں کی بدولت پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی معاشرے کے ہر طبقے ہر گروہ میں واضح دیکھی جاسکتی ہے۔
3۔ خاندانی نظام کو منتشر کرنا اور اس کا شیرازہ بکھیرنا ایک پاکستانی ڈرامے میں معمولی بات بن چکی ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں ہر شوہر کسی اور عورت سے اور ہر بیوی کسی اور مرد کو اپنے شوہر سے زیادہ اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھتی ہے۔
4۔ پاکستانی نیوز چینل پر ہونے والے قومی و بین الاقوامی مباحثوں میں بھی جو زبان سیاستدان اور بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں۔ وہی زبان عمومی طور پر عوام میں اپنا اثردکھا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط و اخلاقی گراوٹ کا شکار ہورہا ہے۔
5۔ زندگی میں صرف عیش و آرام اور بقول بابر، بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق ’’کھا لے پی لے جی لے‘‘ کی تکرار کے باعث خوف آخرت رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہاہے۔
6۔ ڈراموں میں خاندانی رشتوں سے نفرت اور ددھیالی سسرالی رشتوں سے بے تحاشا نفرت دکھائی جاتی ہے جس کے سبب ون یونٹ فیملی کا تصور عام ہوگیا ہے۔ جس کی توجیہہ کے لیے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔
7۔ ان ڈراموں میں رشوت، سفارش، جھوٹ، لالچ، دھوکا، فریب، مکاری کو مصلحت کے پردے میں لپیٹ کر اتنا خوشنما خوب صورت بناکر دکھایا جاتا ہے کہ عوام الناس کے نزدیک ان افعال میں گناہ کا تصور قدرے کم ہوگیا۔ اب لوگوں کے نزدیک مصلحت کے تحت ان سب کاموں کی ادائیگی باآسانی ہوجاتی ہے جس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
8۔ شراب نوشی و جوا اور مختلف منشیات کا استعمال دکھا کر ان پاکستانی ڈراموں میں ان تمام جرائم و گناہ کی طرف ہونے والی جھجھک تقریباً ختم کردی گئی ہے۔
9۔ عورت کی آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگا کر عورت کو ایک سازش کے تحت اس کے قلعے، مضبوط حصار یعنی گھر سے نکال کر شمع محفل بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ ہر ڈرامے میں آفس لیڈی، جاب کرنے والی لڑکی یا اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتی خواتین کا کردار اسی سازش کی چند کڑیاں ہیں۔
ان پاکستانی ڈراموں میں سے چند انکار، باغی، تیری رضا، محبت تجھ سے نفرت ہے، صلہ ڈر سی جاتی ہے، کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی، چیونگم، اڈاری، میں ماں نہیں بننا چاہتی، میرے پاس تم ہو، بیگانگی، جھوٹی، دیوانگی، آتش، دوبول، رسوائی، اور پاکستان میں کروڑوں کا بزنس کرنے والی انڈین فلمیں شامل ہیں۔
ان تمام حقائق آپ کے سامنے دہرانے یا آشکار کرنے کا مقصد کسی خاص گروہ یا پارٹی کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں۔ بلکہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کی جانی والی تجزیاتی رپورٹ بنانے کا واحد مقصد عوام کو کسی بھولے سبق کی یاددہانی، کسی مقصد کی جانب توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کو اس بات کی آگہی دینی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے پاس جینے کا ایک واضح مقصد موجود ہے۔ یہ یہود نصاریٰ کی ترجمانی کرنے والے الیکٹرونک میڈیا مالکان سوائے چند ایک کہ یہود کی خوشنودی کی خاطر معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا اس حد تک شکار کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر رشتوں کا تقدس محبت، اخوت، باہمی الفت اور باہمی احترام، خونی رشتوں سے پیار کی تمام کیفیات یکسر ختم ہوجائیں۔ اور وہی مادر پدر آزاد یورپی معاشرہ بن جائے۔ جس سے آج ایک مغربی عورت خود پریشان اور اضطراب کا شکار ہے۔ آج مغربی معاشرے سے خاندان کا تصور کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ جس کے لیے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ہمیں اس ناپیدار معاشرے کی زہریلی ہوا سے اپنے پاک معاشرے کو بچانے کے لیے لوگوں میں آگہی پیدا کرنی ہے۔ لوگوں کو بیدار کرنا ہے۔ اسلام کی روح اور اس کی اصل سے رائے عامہ میں آگہی پیدا کرنی ہے۔ خاندان کو انتشار سے بچانا ہے۔ ہر فرد کو اپنے حصے کاکام بھرپور انداز میں کرنا ہے۔ اپنے فرائض کی آگہی کو اولین ترجیح دینی ہے۔ اپنے حصے کی شمع اپنے ہاتھوں سے روشن کرنی ہے۔ اپنی صفوں کو منظم کرنا ہے۔ اپنے پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلوؤں سے دنیا کو روشناس کروانا ہے۔ اپنے خاندانوں کی باہمی اخوت کی ڈور سے مضبوط کرنا ہے۔ ہم عورتیں ہی قوموں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ہم ہی وہ عورتیں ہیں جنہوں نے ہر دور میں اقوام کو مایوسیوں کی دلدل سے نکالا ہے۔ اقوام عالم میں ملک کا وقار بلند کیا ہے۔ آج بھی اگر ہم عورتیں اپنے محاذ پر ڈٹ کر کھڑی ہوجائیں تو کوئی ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے خاندانوں خراب نہیں کرسکتا۔ اب ہمیں اپنے محاذ کا خود دفاع کرنا ہے۔ ورنہ اس پاکستانی معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے تمام مورچے تیار اور تمام نیزے کسے جاچکے ہیں۔ بقول شاعر
اٹھو وگرنہ حشر بپا ہوگا نہ پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا