کورونا وائرس اور شرح سود

501

کورونا وائرس کی دہشت ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ ہر ملک میں اس کے بارے میں تشویش پیدا کردی گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے صرف خوف وہراس ہی نہیں پھیلا بلکہ اس نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے ۔ خاص طور سے معیشت تو بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ خوف کے باعث لوگوں کی آمدورفت پر پابندی عاید کردی گئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت ، ہوابازی ، ہوٹل ، ریستوران ہر چیز میں زبردست مندی ہے ۔ جس جس ملک میں کورونا وائر س کی اطلاع پائی گئی، اس کا مقاطعہ کردیا گیا اور سرحدیں بند کردی گئی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ یہ صورتحال تو نہیں ہے کہ کورونا وبائی صورت اختیار کرگیا ہو مگر پاکستان کے پڑوسی ممالک میں کورونا وائرس کے وبائی صورت اختیار کرنے کی وجہ سے عملی طور پر پاکستان خود محصور ہو کر رہ گیا ہے ۔ پاکستان کی زمینی سرحدیں بھارت ، چین ، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور ان چاروں سرحدوں پر پاکستان نے خود ہی آمد و رفت پر پابندی عاید کردی ہے ۔ اس طرح سے پاکستان زمینی طور پر ازخود محصور ہو کر رہ گیا ہے ۔اب صرف فضائی اور بحری راستے ہی آمد و رفت کے لیے کھلے ہیں ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بدلتی صورتحال کے باعث سارے ہی ممالک پیش بندی بھی کررہے ہیں اور اس کا توڑ کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں ۔ امریکا میں ابھی تک کورونا کے باعث وہ صورتحال درپیش نہیں ہے جو ایران اور اٹلی کو پیش آچکی ہے مگر معاشی سرگرمیوں میں مندی نے امریکی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے جس کے توڑ کے لیے امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا نے فوری طورپر شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے ۔ بیشتر یورپی ممالک میں شرح سود یا تو صفر ہوچکی ہے یا صفر کے قریب ہے ۔ پاکستان کے حالات اس کے بالکل برعکس ہیں گو کہ مسلمانوںکے لیے سود لینا اور دینا سخت گناہ ہے تاہم آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم رضا باقر جو اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہیں ، شرح سود 13.25 کی سطح پر لے آئے ہیں جو دنیا میں بلند ترین ہے ۔ اس بلند ترین شرح سود کی وجہ سے پاکستان میں ساری ہی معاشی سرگرمیاں انجماد کا شکار ہوچکی ہیں بلکہ اب تو منفی صورتحال درپیش ہے ۔ اتنی بھاری شرح سود پر کوئی بھی معاشی سرگرمی قابل عمل نہیں رہی ہے ۔ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کے بھاری نرخوں نے پوری کردی ہے ۔ اس وقت پٹرول کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں 50 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آچکی ہیں مگر پاکستان میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ عمران خان نیازی بتائیں کہ اس طرح کیسے ملک کی گاڑی چل سکتی ہے ۔ اس وقت سود کی ادائیگی میں بجٹ کا سب سے بڑا حصہ چلا جاتا ہے ۔ بھاری شرح سود کی وجہ سے حالات مزید گمبھیر ہوگئے ہیں ۔ باہر سے لوگ بینکوں سے کم شرح سود پر قرض لیتے ہیں اور پاکستان کے ٹریژری بل خرید لیتے ہیں ۔ تین ماہ یا چھ ماہ کے بعد وہ بھاری شرح سود سمیٹتے ہیں اور مزے کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عمران خان نیازی کے حکومت میں آنے کے بعد سے صرف شرح سود کی مد میں کی جانے والی ادائیگی 1900 ارب روپے سے بڑھ کر 2900 ارب روپے ہوگئی ہے ۔ عمران خان نیازی آخر کیوں ملک دشمن پالیسی کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں ۔ وہ کیوں شرح سود کو پانچ یا چھ فیصد پر نہیں لاتے ۔ جب ملک میں معاشی سرگرمیاں ہوں گی تو ہر قسم کا ٹیکس بھی ملے گا اور حکومت کو ریونیو کی کمی کا بھی مسئلہ نہیں رہے گا۔ یہ آسان سا وہ نسخہ ہے جس پر عمران خان نیازی نامعلوم وجوہات کی بناء پر عمل کرنے سے پہلے دن سے انکاری ہیں ۔ ابھی امریکا پر وہ اثرات نہیں آئے ہیں جو پاکستان پر آچکے ہیں مگر امریکا نے فوری طور پر شرح سود میں کمی کردی ۔ پاکستان کے تو حالات انتہائی خطرناک ہیں ، عمران خان نیازی کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت روز زوال کا ایک نیا سنگ میل عبور کرتی ہے ۔ ڈالر کی بے قدری کے احمقانہ فیصلے نے پہلے ہی معیشت کی چولیں ہلادی ہیں کہ اب کورونا کی وجہ سے پاکستان عملی طور پر محصورہوکر رہ گیاہے ۔ ایسے میں عاقبت اندیشی تو یہی تھی کہ بجائے لوگوں کو محصور کرنے کے ، انہیں مزید سرگرم کیا جاتاتاکہ معیشت کا پہیہ چل سکے ۔ چین ہی دنیا میں بڑی پیداوار والا ملک رہا ہے۔ چین اور دیگر ممالک کی سرحدیں بند ہونے سے دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ پاکستان آگے بڑھ کر اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ۔ اس سے پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں دوبارہ سے اپنا مقام حاصل کرنے میںبھی مدد ملتی ۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان نیازی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ایجنٹوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور اہم کلیدی اسامیوں پر محب وطن اہل افراد کا تقرر کریں جو آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے بجائے ملک کے مفاد میںپالیسیاں تشکیل دیں ۔ روپے کی قدر کو بتدریج بہتر کیا جائے ، پٹرول کی عالمی منڈی میں کم ہونے والی قیمت کا فائدہ پاکستانی صارفین کو پہنچایا جائے ، بجلی اور گیس کے نرخوں کو نہ صرف کم کیا جائے بلکہ بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کی چور بازاری سے نجات دلائی جائے اور سب سے بڑھ کر بینکوں کی شرح سود کو حقیقی سطح پر نیچے لایا جائے ۔ اس کے بغیر ملک میں معاشی سرگرمیاں نمو نہیں پاسکتیں اور جب تک معاشی سرگرمیاں نمو نہیں پائیں گی ، عمران خان نیازی کو ہمیشہ ریونیو کے شارٹ فال کا سامنا رہے گا اور آمدنی میں کمی کا مطلب ہے آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریزی ۔ آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارے کا واحد راستہ خود انحصاری ہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ جتنی جلد ہوسکے عمران خان نیازی ملک کو خود انحصاری کے راستے پر ڈال دیں ۔