امام حسن البناء شہیدؒ سے صدر محمد مرسی ؒ تک

409

ہاین کنگن
اخوان المسلمین کا قیام 1927ء میں عمل میں آیا۔ اس انقلاب کی بنیاد امام حسن البناء شہیدؒ کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انقلاب درحقیقت اسلامی انقلاب ہے۔ اخوان المسلمین حسن البناءؒ شہید کا انقلاب ہے جنہوں نے بیج بویا، بیج سے انکھوے پھوٹے، پتے نکلے، شاخیں پھلیں، جڑیں انتہائی گہری اُتریں اور انقلاب کی صورت میں پھل آیا جس سے پوری قوم آج مستفید ہورہی ہے۔ اخوان المسلمین کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ ہر سرکش طاغوت کے خلاف اس نے مقابلہ کیا چاہے وہ انورالسادات کی شکل میں ہو، چاہے وہ جمال عبدالناصر کی صورت میں ہویا حسنی مبارک ہو۔ ہر ایک کے خلاف انہوں نے بغاوت کی جنگ چھیڑی۔ اخوان المسلمین کا ایک ہی نعرہ ہے ’’الاسلام ھو الحل‘‘ یعنی اسلام ہی تمام مسائل کا حل ہے اور یہی نعرہ انہوں نے مصر میں چہار جانب پھیلادیا اور یہ تحریک مصر میں اس طرح پھیلی کہ زندگی کے تمام شعبوں خاندانی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں سرگرم ہوئی۔ اخوان نے بڑے پیمانے پر طاغوتی حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ وقت کے حکمرانوں کو یہ بات ہضم کیسے ہوتی؟ 1954ء میں جمال عبدالناصر نے حکومت پلٹانے کا بے بنیاد الزام لگا کر اخوان پر پابندی عائد کردی۔ حکومت یہاں نہیں رُکی بلکہ 1965ء میں دوبارہ اخوان پر کریک ڈاؤن کیا اور حالت اتنی بُری ہوئی کہ سید قطب شہیدؒ سمیت چھ بڑی شخصیات کو موت کی سزا سُنادی گئی۔ جمال عبدالناصر کی حکومت میں 1966ء میں سید قطب ؒ کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔
چونکہ انقلاب کبھی کبھار قوموں کی تاریخ میں رونما ہوتا ہے اور یہ انقلاب صرف اس لیے آیا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہو۔ انقلاب اکثر ممالک میں حالات بدل دیتے ہیں، حکومتیں یکسر بدل جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئے اور بہتر نظاموں کو قائم کرتے ہیں۔ انقلاب لانے میں لوگوں کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں چاہے مالی قربانیاں ہوں یا جانی۔ اگر ہم اخوان کی طرف نظر ڈالیں تو اس تحریک نے ہر شعبے میں قربانیاں دیں۔
مخالفوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ ان انقلابات کو روک دیا جائے یا پھر ختم کیا جائے۔ سید قطبؒ کی شہادت کے بعد اخوان نے کبھی حسنی مبارک اور کبھی وفد پارٹی کے ساتھ لیبر اور لبرل جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور اس طرح اخوان مصر کے اہم اپوزیشن بن گئی۔ اسی طریقے سے اخوان نے مصر میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ یہ مضبوطی دیکھ کر صدر حسنی مبارک نے پھر سے اخوان کی طاقت کو توڑنے کے لیے حکومت کے قانون میں تبدیلی کی اور یہ شرط رکھی کہ کسی بھی سیاسی حرکت یا سیاسی جماعت کی بنیاد پر کوئی مذہبی جماعت نہیں ہونی چاہیے اور آزاد امیدوار پر صدارتی الیکشن لڑنا ممنوع قرار دیا۔ آخر کار ایسا ہوا کہ مصر کی عوام تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔ انہوں نے تحریر اسکوائر پر اپنا قبضہ ڈال دیا لیکن اخوان کی طرف سے ابھی کوئی بیان نہیں آیا تھا۔ حکومت کو اس بات پر یقین تھا کہ یہ حرکت اخوان کی ہوگی اور حکومت نے انہیں اس غیر مطمئن صورت حال کا ذمے دار ٹھیرایا۔ آخر کار اخوان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا کہ ’’ہم بھی عوام کا ایک حصہ ہیں، عوام آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی خاطر نکل چکے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا بالکل حق ہے۔ عوام جعلی پارلیمنٹ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور انہیں اپنی آزادی مطلوب ہے۔ ہم ایک اسلامی ریاست چاہتے ہیں، ایک ایسا نظام جہاں میڈیا کو آزادی ہو اور آزاد و انصاف پسند عدلیہ ہو‘‘۔
اب بہت ہی قلیل وقت میں اخوان کی غیر معمولی ترقی ہوئی۔ اخوان کی طرف سے لڑکیوں اور بچوں کے لیے مدرسہ امہات المومنین قائم کیا گیا اور اخوان المسلمات کے شعبے کی تشکیل کی گئی۔ مشہور مصری محقق شوق ذکی لکھتے ہیں:
’’1939ء سے 1945ء تک سیاسی لحاظ سے اخوان کی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ اس کی سرگرمیوں اور پروگراموں میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوگئی۔ اخوان کے اندر قاہرہ یونیورسٹی اور ازہر یونیورسٹی کے نوجوان جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ اس دور میں اخوان کو ایسا عروج حاصل ہوا کہ صرف اخوان کے فعال کارکنوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی اور اخوان نے مضبوطی حاصل کی۔ اب ہونا کیا تھا اخوان کی غیر معمولی ترقی دیکھ کر یہود و نصاریٰ اور اسلام مخالف قوموں کو یقین ہوگیا کہ اگر ہم تحریک اخوان المسلمین کو روکنے میں ناکام ہوئے تو وہ عرب دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو روک نہ سکیں گے‘‘۔
یہ حالات دیکھ کر اب اخوان پر باطل شکنجہ کسنے لگا۔ امام حسن البناء شہیدؒ ان چیزوں سے واقف تھے کہ ہمیں آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’اس کام میں وہ وقت آئے گا جب ہم ابتلا و آزمائش کے دور میں داخل ہوںگے۔ دعوت حق کے علم برداروں کی راہ میں اس منزل کا آنا ناگزیر ہے‘‘۔ قائد نے عزم و حوصلہ سے کام لیا۔ 12فروری 1949ء کی شام کو شباب المسلمین کے مرکز کے سامنے قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر گولی مار کر حسن البناء ؒ کو شہید کردیا گیا۔ مصر کے عوام نے جب یہ بات سُنی تو انہیں یہ خبر بجلی بن کر گری۔ اس کے بعد اخوان المسلمین نے مسلسل اسلامی جمہوریت کے قیام کے لیے کام کیا اور آخر کار ڈاکٹر محمد مرسیؒ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر تھے۔ مصر میں محمد مرسیؒ بحیثیت صدر صرف ایک سال تک رہے۔ 2013ء میں فوج نے اُن کا تختہ اُلٹ دیا اور اس کے بعد اُنہیں نامعلوم مقام پر بند کردیا گیا اور پھر 2013ء میں حکومت نے اعلان کیا کہ اُن پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ پھر مقدمات شروع ہوئے۔ حکومت کا الزام تھا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اُکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور قید کیا۔ ستم ظریفی کہ مقدمہ میں ڈاکٹر محمد مرسیؒ کی کچھ نہ سنی گئی اور اُن کو 20سال کی قید سنائی گئی۔ آخر کار صدر محمد مرسیؒ 18جون 2019ء کو پیشی کے دوران گرکر شہید ہوگئے اور شہادت کی وجہ کیا تھی اس بات سے پوری دنیا واقف ہے۔