جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے اردگرد مشیروں اور وزیروں کا جو ٹولا ہے وہ ہر وقت سازش! سازش کی گردان کرتا رہتا ہے۔ بادشاہت کے دور میں محلاتی سازشیں ہوا کرتی تھیں جمہوریت میں درباری سازشیں ہوتی ہیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے کیوں کہ حکومت کی مخالفت کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتے۔ بعض ستم گروں کا کہنا تھا کہ نواب صاحب وزیراعظم بن کر بھی مخالف نشست پر بیٹھیں گے مگر انہیں یہ موقع میسر نہ آسکا سو، تجزیہ نگاروں کی مراد بر نہ آسکی مگر عمران خان اس معاملے میں خوش بخت ثابت ہوئے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ کا تخت نصیب ہوا مگر موصوف ابھی تک کنٹینر پر ہی تشریف فرما ہیں اور ابھی تک اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انہیں وزارت عظمیٰ تو مل گئی ہے مگر وزارت عظمیٰ کا قلمدان نہیں ملا۔
پراچہ صاحب کا یہ کہنا درست ہی ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ آئے دن مافیاز کا ذکر کرتے رہتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاتے بلکہ یہ
کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ تادیبی کارروائی کے متحمل نہیں ہوسکتے، اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان عوام اور مقتدر طبقے کے لاڈلے تھے مگر اب کوئی بھی ان کی باتوں پر سنجیدگی کا اظہار نہیں کرتا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ ہزاروں روپے ماہانہ کمانے والا اور لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والا بھی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ دست ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ دو لاکھ سے زیادہ تنخواہ لے کر بھی تن خواہی نہیں کرسکتے اور جو ہزاروں روپے ماہانہ لے رہے ہیں وہ بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں اور بدنصیبی یہ بھی ہے کہ عمران خان فرما رہے ہیں کہ صبر کرو کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اگر عمران خان سازش! سازش کی رٹ لگانے کے بجائے اپنی حکومت کی رٹ پر توجہ دیں تو مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ اور سبب سبھی کا علم ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈیڑھ سالہ حکومت کے دوران کوئی بھی ایسی پالیسی وضع نہیں کی جو عوام کو ریلیف دے۔ ان کا ہر بیانیہ اور ہر اقدام عوام کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے۔ عمران خان اس بچے کی طرح ہیں جو اپنی دانست میں شرارت کرتا ہے مگر بدتمیزی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ اسی طرح عمران خان عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کا یہ عمل اور بیانیہ عوام کے لیے تکلیف کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ابھی تک عمران خان کے لیے کوئی رد بلا کا تعویذ کیوں نہیں لکھوایا۔ شاید پیر صاحب سے مایوس ہوچکے ہیں جس کا پیر ناخوش ہو وہ کسی کو خوش نہیں کرسکتا۔