صداقت قِرآن حکیم

308

عبدالمالک مجاہد

بلاشبہ قرآن پاک دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس کی تلاوت کتنی ہی بار کریں دل کبھی سیر نہیں ہوگا۔ دنیا کی کوئی بھی دوسری کتاب‘ خواہ وہ کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہو اس کو متعدد بار پڑھنے کے بعد آپ سیر ہو جائیں گے۔ آپ کا اسے اب کی بار پڑھنے کو جی نہ چاہے گا مگر قرآن کریم کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ولید بن مغیرہ سیدنا خالدؓ کا والد اپنی قوم بنو مخزوم کا بڑا سردار تھا۔ اس نے قرآن پاک کے بارے میں اس طرح تبصرہ کیا:
’’اللہ کی قسم! اس کے قول میں بڑی شیرینی اور بڑی رونق و شادابی ہے‘‘۔
عرب سرداروں نے قرآن اور صاحب قرآن کو مغلوب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ وہ مسلمانوں کی جان و مال، عزت آبرو سمیت ہر متاع عزیز پر حملہ آور ہوئے لیکن جرأت نہ کر سکے کہ قرآن کے مقابلے میں کوئی کلام پیش کر سکیں۔ بلکہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ نجی مجالس میں انھوں نے اس کے بے مثال ہونے کا اعتراف کیا۔ قرآن پاک کا انداز اتنا مؤثر اور نرالا ہے کہ جو اسے سنتا وہ مبہوت ہو کر رہ جاتا۔
حج کا زمانہ قریش پر بہت گراں گزرتا۔ عرب کے ہر کونے سے زائرین حرم آتے۔ اس موسم میں اللہ کے رسولؐ کو تبلیغ کا موقع ملتا۔ قرآن کی دعوت کا اسلوب اس قدر دل نشیں ہے کہ لوگ جب واپس جاتے تو اللہ کے رسولؐ اور ان پر اترنے والی کتاب کا تذکرہ ہوتا۔ ولید بن مغیرہ جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس نے حج کے موقع پر لوگوں کو جمع کیا کہ ایام حج میں عرب کے مختلف وفود آئیں گے۔ اس لیے محمدؐ کے بارے میں کوئی مناسب پالیسی بنالیں۔ ان کے اوپر اترنے والی کتاب کے بارے میں مشترکہ رائے ہو۔ پھر کوئی بھی اس کی مخالفت نہ کرے۔ ہم میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ خود ہمارا ہی ایک آدمی دوسرے کی تکذیب کردے اور ایک کی بات دوسرے کی بات کو کاٹ دے۔ لوگوں نے کہا کہ پھر آپ ہی کہیے۔ اس نے کہا: نہیں! تم لوگ کہو میں سنوں گا۔ اس پر چند لوگوں نے کہا: ہم کہیں گے کہ وہ کاہن ہے۔ ولید نے کہا کہ نہیں واللہ! وہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے کہ اس شخص کے اندر نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے نہ ان کے جیسی قافیہ گوئی اور تُک بندی۔ اس پر لوگوں نے کہا: پھر ہم کہیں گے کہ وہ پاگل ہے۔ ولید نے کہا: نہیں وہ پاگل بھی نہیں ہے۔ ہم نے پاگل بھی دیکھے ہیں اور ان کی کیفیت بھی۔ اس شخص کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان کے جیسی بہکی بہکی باتیں۔
پھر لوگوں نے رائے پیش کی کہ اس پر اترنے والی کتاب کے بارے میں ہم کہیں گے کہ شاعری ہے۔ ہم اسے شاعر کہیں گے۔ ولید نے پھر سر ہلادیا۔ اس نے کہا: مجھے رجز، ہجز، قریض، مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ ان کا کلام بہرحال شعر نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تب ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہیں۔ ولید نے کہا: یہ شخص جادوگر بھی نہیں۔ ہم نے جادوگر اور ان کا جادو بھی دیکھا ہے۔ یہ شخص نہ تو ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے نہ گرہ لگاتا ہے۔ تب لوگوں نے پوچھا آخر ہم کیا کہیں؟ اب ولید بن مغیرہ گویا ہوا: خدا کی قسم! اس کی بات بڑی شیریں ہے، اس کی جڑ پائیدار ہے اور اس کی شاخ پھل دار۔ تم جو بات بھی کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے۔ البتہ اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ جادوگر ہے۔ اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے۔ اس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی اور کُنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ بالآخر لوگ اس تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے۔
ایک روایت کے مطابق ولید کے بارے میں سورۂ مدثر کی آیات نازل ہوئیں جن میں اس کے سوچنے کا انداز کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اس نے سوچا اور اندازہ لگایا، وہ غارت ہو، اس نے کیسا اندازہ لگایا، پھر غارت ہو اس نے کیسا اندازہ لگایا، پھر نظر دوڑائی، پیشانی سُکیڑی اور منہ بسورا، پھر پلٹا اور تکبر کیا۔ آخر کار کہا کہ یہ نرالا جادو ہے جو پہلے سے نقل ہوتا آ رہا ہے۔ یہ محض انسان کا کلام ہے‘‘۔
قرآن پاک کے بارے میں اس قوم کا تبصرہ جو اوپر ذکر ہوا ہے، مختلف مجالس میں ہوتا۔ قرآن پاک سے لوگوں کو دور کرنے کی کوششیں ہوتیں مگر قرآن اور صاحب قرآن کا انداز اتنا دلکش ہے کہ جو بھی قرآن کے قریب ہوا اور اس پر عمل کیا اسے دنیا و آخرت میں عزت اور افتخار ملا۔ اور یہی و جہ ہے کہ قرآن پاک نے مختلف انداز میں لوگوں کو مخاطب کیا۔ ان کو غور و فکر اور تدبر کرنے کی دعوت دی۔ کفار مکہ نے سابقہ امتوں کے واقعات اور افسانوں سے قرآن کا مقابلہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر ان کی یہ کوششیں رائیگاں گئیں۔
یہ ایک امر واقعی ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی زبان اقدس سے جو بھی بات نکلی آپ کے دشمنوں کو بھی اس کا یقین تھا کہ وہ سچی ہے۔ قرآن پاک کے بارے میں وہ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ محمدؐ کا بنایا ہوا نہیں ہے۔