آج سے پندرہ صدیاں قبل جب یثرب‘ مدینہ بنا تو دنیا میں انقلاب آگیا‘ پھر حکم ہوا کہ اگر فاطمہ بن محمدؐ بھی ہو تو اسے بھی جرم کی وہی سزا ملے گی جو کسی دوسری فاطمہ کو مل رہی ہے‘ یہ کوئی تخیلاتی کہانی نہیں ہے‘ حقائق ہیں‘ تاریخ کے سنہرے باب ہیں‘ آج ہمارے وزیر اعظم ان دنوں چڑ کر کہہ رہے ہیں کہ ریاست مدینہ کوئی ایک دوسال میں نہیں بن گئی تھی‘ ریاست مدنیہ اسی وقت بن گئی تھی جب قدم مبارک اس سرزمین پر رکھ دیے گئے‘ جہاں قصویٰ بیٹھی تھی‘ وہیں ریاست مدینہ کی پہلی مسجد تعمیر کی گئی‘ اور تعمیر سے پہلے اس اراضی کی قیمت ادا کی گئی‘ یہی ریاست مدینہ کا آغاز تھا۔ جناب‘ کچھ پڑھیے ریاست مدینہ کے بارے میں‘ پھر دعویٰ کیا جائے ریاست مدینہ میں جن اصولوں کو متعارف کرایا گیا ان میں عدل‘ انصاف سب سے اہم تھا اور ریاست مدینہ کی قیادت میں جرأت‘ ایمان داری‘ دیانت داری کا اظہار ریاست بنانے سے قبل ہی تھا اسی لیے تو امانتیں‘ سپرد کرنے کی ذمے داری سیدنا علی حیدر کرارؓ کو دی گئی اور پختہ ایمان اس قدر کہ جب گھر سے نکلے تو صرف یہی کلمہ زبان پر تھا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘ ریاست مدینہ میں حکم تھا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘ آج کیا ہو رہا ہے‘ ذرا مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی اشیاء دیکھ لیں‘ دودھ کا جائزہ لیں‘ ادویات کا حال دیکھیں‘ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ کے ڈی اے سمیت شہر کے ہر ترقیاتی ادارے کا حال دیکھ لیں… لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں‘ اسلام آباد میں بیس بیس تیس تیس سال ہوچکے ہیں‘ ایک نسل گزر گئی ہے مگر پلاٹوں کا قبضہ نہیں ملا‘ لوگوں نے دھوکے میں آکر تبدیلی کے لیے ووٹ دیا… سوال یہ ہے کہ ووٹ دیا بھی تھا یا نہیں‘ بہر حال یہ بات یہیں چھوڑ دیتے ہیں کہ اصل بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں… بہر حال لوگوں کی امیدیں بر نہیں آئیں‘ مہنگائی نے ناک میں دم کر کھا ہے بجٹ ہر سال آتا ہے‘ اس سال بھی آئے گا‘ اسمبلی میں اپوزیشن شور شرابہ کرے گی اور بجٹ اس کے باوجود پاس ہوجائے گا کہ روایت یہی ہے بجٹ پاس ہوجانے کے بعد سارا سال وہی بات زیر بحث رہے گی کہ جو فیصلے ہوئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس سال بھی بجٹ آئے گا تو یہی ہوگا‘ یقینا حکومت اور ایف بی آر سے بات چیت بھی ہوگی‘ مذاکرات بھی ہوں گے تجاویز دی جائیں گی‘ ان تجاویز پر واہ واہ بھی ہوگی‘ لیکن سوال پھر وہی رہے گا کہ فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔
پشاور‘ کوئٹہ‘ لاہور اور کراچی والے کہتے ہیں کہ انہیں ان کا حق نہیں ملا‘ اسلام باد والے رو رہے ہیں کہ شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا‘ یہاں جس کا جو جی میں آئے کرتا چلا جارہا ہے‘ اس شہر کے لیے ماسٹر پلان بنا تھا‘ نہ جانے وہ پلان اب کس کباڑ خانے میں پڑا ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی تنظیم ہو یا کسی قومی الیکشن کی بات ہو‘ جس کو بھی یہ سمجھ کر ووٹ دیا کہ وہ ضرور کچھ کرے گا مگر اس نے کچھ نہیں کیا‘ ملک کی ہر سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسے بار بار باری ملتی رہے‘ اسی طرح ہر تنظیم میں عہدیدار یہی کہتا ہے کہ صرف اسے ہی نجات دہندہ تصور کیا جائے اور بار بار منتخب کیا جائے چاہے تنظیم کا دستور کچھ بھی کہہ رہا ہو‘… ہر کوئی ووٹ مانگتا ہے لیکن کوئی کچھ کرکے دکھانے کو تیار نہیں‘ ہمیں بطور شہری اپنا ملک سجانا چاہیے‘ بطور مسلمان صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ سارا سال ہمیں اپنی مساجد آباد کرنی چاہیے‘ انتہاء پسندی کے رحجان کو ختم کرکے ہمیں بطور انسان‘ دوسروں کی فلاح کے لیے سوچنا چاہیے‘ اپنے ہمسایے کے لیے سوچنا چاہیے‘ لیکن ہم ہیں کہ یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ اپنا پیٹ بھر لو‘ دوسرا کیوں بھرے۔ کراچی والوں کا دعویٰ ہے کہ صرف وہ ہی ریونیو دے رہے ہیں تو ملک چل رہا ہے نہیں جناب ایسا نہیں ہے‘ کوئی صرف اپنے شہر کا نہ سوچے بلکہ سب کے لیے سوچے گا تو بات بنے گی۔ صرف اپنے شہر کی بات کرنے والے یہ بھی سوچیں کہ صنعتوں کے لیے پانی‘ گیس بجلی اور ساز گار ماحول کی عدم فراہمی ہر صنعتی شہر کا مسئلہ ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام آباد میں پینے کے پانی کا کس قدر گہرا اور گمبھیر بحران سر اٹھائے کھڑا ہے‘ یہاں تیزی سے گھاس کی طرح اونچی عمارتیں سر اٹھا رہی ہیں‘ اسلام آباد کے نواح میں کیوں یہ کام نہیں کیا جاتا‘ جو بھی آتا ہے کہتا ہے کہ بس اسی کی بات مانی جائے اگر یہی حالات رہے تو دس سال کے بعد یہاں اس شہر میں تازہ ہوا تک نہیں ملے گی اور اسلام آباد میں پانی پٹرول سے مہنگا ملے گا۔ اسلام آباد میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے‘ راہ زنی بڑھ رہی ہے‘ چوریاں بڑھ رہی ہیں‘ یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں حتیٰ کہ لوگ مایوس ہو نے لگے ہیں ہر شہر پیکیج مانگتا ہے‘ مگر قسم ہے کبھی اسلام آباد کو پیکیج ملا ہو… بس یہاں لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے‘ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری ہو یا کوئی ایسوسی ایشن‘ سب کے اپنے مطالبات ہیں‘ اس شہر میں صارفین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ صارف پیسے اصل دیتا ہے اسے دودھ سمیت کھانے پینے کی اشیاء یہاں ہر چیز ناقص ملتی ہے‘ شہر میں مارکیٹیں موجود ہیں اس کے باوجود ہر سیکٹر میں پھیری والے آتے ہیں اور ناقص مال بیچ کر چلے جاتے ہیں‘ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے صرف ایک گزارش ہے کہ حکومت توجہ دے‘ شہر میں امن وامان، سیوریج کے مسائل، تمام تجارتی مارکیٹوں کے خستہ حال انفرا اسٹرکچر پر توجہ دے اور، تجاوزات کے خلاف مہم چلائی جائے‘ اب تو فٹ پاٹھ پر بھی چلنے کو جگہ نہیں مل رہی‘ یہاں بھی موٹر سائیکلیسٹ دندناتے رہتے ہیں‘ رہی سہی کسر تجاوزات نے پوری کردی ہے۔