آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی نواب سلیم اللہ

694

ترجمہ: محمد رضا
ڈھاکا کے نواب، مسلم قوم پرست اور آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی خواجہ نواب سلیم اللہ 7 جون 1871ء کو احسن منزل میں پیدا ہوئے۔ وہ نواب خواجہ احسن اللہ کے بیٹے اور نواب خواجہ عبدالغنی کے پوتے تھے۔ وہ علم کے سر پرستوں میں سے تھے، انہوں نے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی گھر میں سیکھی۔
نواب سلیم اللہ نے 1893ء میں بطور مجسٹریٹ سرکاری ملازمت شروع کی لیکن دو برس بعد ہی یعنی 1895ء میں ملازمت ترک کر دی اور کاروبار کا آغاز کیا۔ 1901ء میں والد کی وفات کے بعد سب سے بڑے سپوت ہونے کے ناتے سلیم اللہ ڈھاکا کے نواب بن گئے۔ آج بنگلا دیش کے گھر گھر میں ان کا نام معروف ہے۔
1903-1904ء میں نواب سلیم اللہ کی سیاست میں دلچسپی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے بنگال کی تقسیم کے حکومتی منصوبے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہندوستان کی مسلم سیاست میں ان کا اہم حصہ ہے۔ یہی وہ شخص تھے جنہوں نے 30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم کے افتتاحی اجلاس میں پہلی قرارداد پیش کی۔
نواب سلیم اللہ انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فلاحی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے تھے۔ 1902ء میں انہوں نے ڈھاکا انجینئرنگ اسکول (موجودہ بنگلا دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) کی ترقی کے لیے
اپنے والد کی وصیت کے مطابق ایک لاکھ بارہ ہزار روپے عطیہ کیے۔ انہوں نے زراعت اور صنعتی شعبوں میں مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مساجد، مدرسے، اسپتال اور طلبہ کے لیے ہاسٹلز بھی تعمیر کروائے اور سماجی ترقی کے دیگر کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ڈھاکا کی دست کاری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے نمائش کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے، ان کی اس کاوش نے ڈھاکا میں دست کاری کی صنعت کو ایک نئی زندگی بخشی۔ وہ 1909ء میں دست کاری کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے مشرقی بنگال کی حکومت کی جانب سے قائم ہونے والی کمیٹی کے بھی رکن رہے۔
16 اکتوبر 1905ء کو مشرقی بنگال کے غریب لوگوں کے مفاد میں بنگال کو خالصتاً انتظامی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کر کے نئے صوبے مشرقی بنگال اور آسام کی صورت میں بنا دیے گئے۔ چونکہ یہ فیصلہ مشرقی بنگال کے غربا کے حق میں تھا لہٰذا نواب سلیم اللہ نے اس فیصلے کی بھر پور حمایت کی۔ ڈھاکا طویل عرصے بعد نئے صوبے یعنی مشرقی بنگال کا دارالحکومت بن گیا۔ اس فیصلے کے بعد اسکولوں میں طلبہ کی تعداد پینتیس فی صد تک بڑھ گئی۔ بد قسمتی سے مشرقی بنگال کے پسے ہوئے طبقے کے ٹیکس کے بل پر کلکتہ میں پُرتعیش زندگی گزارنے والی ہندو اشرافیہ سے یہ فیصلہ ہضم نہیں ہوا اور انہوں نے نئے صوبے کے قیام کے خلاف مہم شروع کر دی۔ یہ تحریک بالآخر دہشت گردی میں تبدیل ہوگئی اور 12 دسمبر 1911ء کو مشرقی بنگال اور آسام کو پھر سے یکجا کر دیا گیا۔ مشرقی بنگال کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں میں مایوسی پھیل گئی، نواب سلیم اللہ نے بھی اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
اس فیصلے کے بعد نواب سلیم اللہ نے مشرقی بنگال کے مسلمان رہنماؤں کو یک زبان کرنے کی خاطر انہیں ایک ملاقات کے لیے قائل کیا اور 17 اور 20 دسمبر 1911ء کو دو خطوط بھی لکھے۔ مشرقی بنگال کے مسلمان فیصلے کے خلاف اذیت کا شکار تھے۔ اس موقع پر نواب سلیم اللہ نے ڈھاکا میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا مشورہ دیا۔ نواب کے دونوں خطوط آج بھی کیمبرج یونیورسٹی میں محفوظ ہیں۔ انہی خطوط کی بنیاد پر طویل مشاورت اور بحث کے بعد برطانوی حکومت کی جانب سے ڈھاکا یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلا شبہ 1921ء میں ڈھاکا یونیورسٹی کا قیام نواب سلیم اللہ کے برطانوی حکومت پر مسلسل دباؤ اور ان تھک محنت وجد وجہد کا ہی نتیجہ تھا۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے پہلے رہائشی ہال کا نام نواب کے اعزاز میں ’’سلیم اللہ مسلم ہال‘‘ رکھا گیا۔ انہوں نے یونیورسٹی اور عدالت عالیہ کے لیے زمین بھی عطیہ کی۔
نواب سلیم اللہ کا سب سے بڑا کارنامہ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کا قیام ہے۔ 27 دسمبر 1906ء کو یہ پہلا موقع تھا کہ جب نئے صوبے (مشرقی بنگال) کے وجود میں آنے کے بعد نواب سلیم اللہ نے ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ منعقد کروائی جس میں پورے برصغیر سے آٹھ سو سے زائد مسلم نمائندگان نے شرکت کی۔ پورے ہندوستان سے مسلمان وفود کا اس کانفرنس میں اکٹھا ہونا خوش آئند بات تھی۔ نواب سلیم اللہ استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ جبکہ کلکتہ ہائیکورٹ کے جسٹس شریف الدین نے کانفرنس کی صدارت کی۔ 30 دسمبر 1906ء کو ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت نواب وقار الملک کے ذمے ٹھیری۔ اجلاس میں نواب سلیم اللہ کی تجویز اور حکیم افضل خان کی حمایت پر آغا خان کو ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کا صدر منتخب کر لیا گیا، نواب سلیم اللہ نائب صدر منتخب ہوئے جبکہ جوائنٹ سیکرٹریز کے طور پر محسن الملک اور نواب وقار الملک کا انتخاب کیا گیا۔ اجلاس کے تمام تر اخراجات نواب سلیم اللہ نے اپنے فیملی فنڈ سے ادا کیے۔
حلانکہ نواب سلیم اللہ 30 دسمبر کو ہونے والے اس اجلاس کے میزبان اور مربی تھے لیکن انہوں نے ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی صدارت اپنے پاس نہ رکھ کر ثابت کیا کہ انہیں سربراہی کی لالچ نہیں بلکہ ان کی تو خواہش ہے کہ برصغیر کے مسلمان متحد ہو کر اپنی قسمت بدلنے کے لیے کاوشیں کریں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی مسلم لیگ نے سال ہا سال کی جدو جہد کے ذریعے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو متحد کیا بلکہ اکتالیس برس کی لگاتار محنت کے بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں ایک علٰیحدہ مملکت بھی حاصل کی۔ بعدازاں مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کی اور بنگلا دیش وجود میں آیا۔
نواب سلیم اللہ 1906ء سے 1912ء تک مشرقی بنگال اور آسام کی قانون ساز اسمبلی جبکہ 1913ء سے 1915ء تک امپیریل کونسل اور متحدہ بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ برطانوی حکومت کی جانب سے نواب سلیم اللہ کو 1902ء میں سی آئی ایس، 1903ء میں نواب بہادر، 1909ء میں کے سی ایس آئی اور 1911ء میں جی سی ایس آئی کا خطاب دیا گیا۔ نواب سلیم اللہ ایماندار، باہمت اور متقی تھے۔ انہوں نے ڈھاکا میں نائٹ اسکول بنوایا، شہر میں پنچایت کا نظام بہتر کیا اور میلاد النبی سمیت دیگر اسلامی سرگرمیوں کو مقبولیت بخشنے کے لیے بھی کام کیا۔ فلاحی کاموں اور سیاسی سرگرمیوں پر بے پناہ خرچ کرنے کے باعث وہ بھاری قرض میں ڈوب گئے۔
1912ء میں نواب سلیم اللہ مشرقی بنگال کو علٰیحدہ صوبہ بنانے کے فیصلے کی منسوخی سے دل برداشتہ ہو کر شدید بیمار پڑ گئے اور 16 جنوری 1915ء کو کلکتہ میں اپنے گھر میں ان کی وفات ہو گئی۔ ان کا جسد خاکی ریاستی اعزاز کے ساتھ ڈھاکا لایا گیا اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں دفنایا گیا۔
نواب سلیم اللہ بانیانِ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کے ناتے اپنی وفات سے قبل مسلم لیگ کی صورت میں ایک دِیا روشن کر گئے اور یہ دِیا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علٰیحدہ وطن ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے وجود میں آنے تک پوری آب وتاب سے روشن رہا۔