بھارت انسانیت پر ایک سیاہ دھبا

280

جاوید الرحمن ترابی
دہلی قتل گاہ بنا ہوا ہے آر ایس ایس کے دہشت گرد مودی سرکار کی سرپرستی میں دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں پوری دنیا خاموش ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔ دنیا بھر کی این جی اوز اور تنظیمیں اصل میں کاروباری ادارے ہیں انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کو سب سے بھاری فنڈنگ عالمی معاشی دہشت گردوں کی جانب سے ہوتی ہے یہ تنظیمیں اس کے بدلے میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں ان عالمی معاشی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں البتہ یہ رنگ ونسل اور مذہب کے نام پر انسانوں کا قتل عام ضرور کرواتے ہیں اور ہر سال لاکھوں انسان ان کی ہوس زر کا شکار ہوکر قبروں میں اتر جاتے ہیں۔ آر ایس ایس کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اب تک صرف دہلی میں 22 سے زیادہ مسلمانوں کو ذبح کیا جاچکا ہے اور 200سے زائد زخمی ہیں۔ مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو لوٹ کر انہیں نذر آتش کردیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے کے دوران ہولی کھیلی مگر انسانی حقوق کے نام نہاد چمپئن کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا دہلی ہائی کورٹ نے’’حکم‘‘ جاری کردیا ہے کہ دہلی پولیس عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے بھارتی ادارے جو آر ایس ایس کے دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ دہلی کے 5مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ ہے شہر کے مسلمان اکثریتی علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروسز معطل ہیں پولیس کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا ہے۔ نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے وزیر داخلہ اور لیفٹیننٹ گورنر سے امن کی اپیل کی اور کہا کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مدد کریں۔
دہلی کے ریاستی انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد مودی اینڈ امیت شاہ کمپنی نے منصوبہ بندی کے تحت آر ایس ایس کے ڈیتھ اسکواڈ کے دہشت گردوں کو پورے بھارت سے دہلی میں اکھٹا کیا ہے تاکہ ایک طرف تو دہلی میں امن امان کی صورتحال کو خراب کرکے عام آدمی پارٹی سے ذلت آمیز شکست کا بدلہ چکایا جائے اور بھارت کو ایک مکمل ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا جاسکے کیونکہ دہلی میں مسلمانوں کی قدیم ترین آبادیاں ہیں اور پرانی دہلی میں زیادہ تر کاروباری بھی مسلمان ہیں تو مودی سرکار ایک تیر سے دو شکار کر رہی ہے۔ خود بھارتی میڈیا مودی اور امیت شاہ کے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھا رہا ہے نئی دلی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے دہشت گردوں نے اشوک نگر میں مسجد پر حملہ کر دیا تھا اور مسجد کی بیحرمتی کرتے ہوئے مینار پر چڑھ گئے اور ایک درگاہ کو بھی آگ لگا دی‘ انتہا پسند ہندو دہشت گردوں کے گروہ شہر میں شناختی کارڈ چیک کرکے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور عالمی ضمیر سو رہا ہے آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے طاقت کے ساتھ حملے شروع کیے دلی کی مساجد کے لاوڈ اسپیکرز پر قبضہ کرکے جے شری رام‘ جے ہنومان اور جے بجرنگ بلی‘ کے نعرے لگائے۔ دہلی میں شرمناک شکست کو مودی اور امیت شاہ قبول نہیں کر پارہے کہ پوری طاقت استعمال کرکے بھی ریاستی اسمبلی کی 70نشستوں کے ایوان میں سے بی جے پی کو صرف 8نشستوں پر کامیابی حاصل ہوسکی دہلی کے ریاستی انتخابات میں کامیابی کے لیے مودی سرکار نے سارے ریاستی وسائل اور طاقت جھونک دی تھی مگر اس کے باوجود ہندوتوا کا ایجنڈا بری طرح پٹ گیا کیجریوال نے قومی سیاسی جماعت کہلانے والی بی جے پی کو چاروں شانے چت کردیا بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کی لیڈر شپ بیلٹ کی ہار کا بدلہ ’’بلٹ‘‘ سے لے رہی ہے۔ غیرملکی صحافیوں کے مطابق موبائل فون پر ویڈیوز یا تصاویر بنانے والوں سے آر ایس ایس کے مسلح لوگ موبائل فون چھین کرتوڑ رہے ہیں انتہا پسند ہندو گروہوں نے کلہاڑیوں‘ تلواروں اور لوہے کی راڈز کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلہ بول دیا جس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس دفاع میں پتھر پھینکے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے ’’بھائی جان پور‘‘ میں انتہا پسند ہندوؤں نے دکانوں کو لوٹ کر آگ لگا دی اور مسلمانوں کے ایک مقدس مزار اور مسجد کو بھی نذر آتش کر دیا۔
ہنگاموں کو امریکی صدر ٹرمپ کی لگائی آگ بھی قرار دیا جارہا ہے کہ انہوں نے عوامی اجتماع سے خطاب میں غیرذمے دارنہ الفاظ استعمال کیے جس کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے اندر کا حیوان جاگ اٹھا‘ بعض نشریاتی ادارے دبے لفظوں میں ممبئی‘ گجرات اور احمد آباد سمیت بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بھی ’’خبردار‘‘ کررہے ہیں کہ آر ایس ایس کے غنڈوں کا نشانہ وہ بھی بن سکتے ہیں ماضی میں بھی آر ایس ایس کے دہشت گردوں نے چرچ نذر آتش کیے بھارت کے ادارے ’’نیشنل کمیشن آف مینارٹیز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عیسائی برادری کے خلاف بھی حملوں کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1999 میں ریاست اڑیسہ میں آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور ان کے دو معصوم بیٹوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
ایک طرف بھارت میں ایک ارب سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تو دوسری طرف مودی سرکار ذاتی تشہیر پر اربوں ڈالر اڑارہی ہے امریکی صدر کے دورے کی انٹرنیشنل کوریج کے لیے حکومت کے خرچ پر مختلف ملکوں سے میڈیا ٹیمیں بلائی گئیں جبکہ امریکا میں کروڑوں ڈالر کے اشتہارات امریکی میڈیا کو دینے کے علاوہ کئی امریکی چینلز سے ’’بھارت امریکا تعلقات‘‘ پر خصوصی رپورٹس کے لیے ائر ٹائم خریدا گیا۔ عالمی بینک دہائیاں دے رہا ہے کہ بھارت کے 1 ارب 14کروڑ یعنی 86 فی صد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325روپے سے بھی کم ہے اس فہرست میں نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے جہاں 92 فی صد لوگوں کی یومیہ آمدنی ساڑھے پانچ ڈالر سے کم ہے۔ بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا‘ اسی طرح بھارت دنیا کے ان بڑے ممالک کے فہرست میں ٹاپ 5پر آتا ہے جہاں بے گھر افراد کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھارت میں ایسے لاچار و بے سرو سامان افراد کی تعداد کا تعین کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور بے گھری کی شکار خواتین کے بارے میں قابل اعتماد ڈیٹا تو میسر ہی نہیں‘ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی کل تعداد میں 10 فی صد سے زیادہ خواتین ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جبکہ ممبئی اور دہلی میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جن کی کئی کئی نسلیں فٹ پاتھوں پر پیدا ہوکر فٹ پاتھوں پر ہی دم توڑ گئیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق صرف نئی دہلی میں بے گھر افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں بے گھر افراد کی تعداد میں کمی ظاہرکی گئی جسے بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے حکومتی اعداد وشمار کو جعلی قرار دیا تھا۔ ممبئی، بھارت کی ایک کروڑ 25لاکھ سے زائد آبادی میں سے نصف بنیادی سہولتوں سے محروم خورد روبستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، 25ہزار سڑکوں پر دن رات گزارتے ہیں اسی طرح بھارت میں بھکاریوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے جبکہ ملک کی صرف پندرہ سے بیس فی صد آبادی کو باتھ روم جیسی بنیادی سہولت دستیاب ہے‘ روزگار، خاندان کی حمایت سے محرومی، ناکافی آمدنی، معذوری اور گھریلو تشدد ممبئی میں بے گھر ہونے کی بنیادی وجوہ ہیں۔ منشیات وشراب کا استعمال اور گھروں کے مالکان کی جانب سے ہراساں کیے جانا بھی اس کی دیگر وجوہ میں سے ہیں۔ بھارت دنیا کے ان ملکوں میں سے جہاں خواتین میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ ہے اقوام متحدہ کے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر 15کروڑ بھارتی بچے گلیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان میں سے 6کروڑ کی عمر یں 6سال سے بھی کم ہے۔