میاں منیر احمد،اسلام آباد
جب اسلام آیا‘ اور ہدائت کا نئیر تاباں جلوہ فگن ہوا‘ قرآن کا آفتاب عالم چمکا تو دنیا بھر کی تمام دیگر تہذیبیں پارہ پارہ ہوگئیں‘ سارے تمدن دھڑام سے گر گئے‘ اور فخر و غرور کے سارے علم سرنگوں ہوگئے‘ صرف ایک پرچم لہرایا جس نے یہ تعلیم دی کہ کوئی کسی سے برتر نہیں‘ برتری کا معیار صرف تقوی ہے‘ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر سبقت نہیں ہے‘ اللہ نے انسان کو خواتین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا‘ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے یہ تعلیم کہ کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں‘ صرف ایک تقوی ہے یہ صفت ہر انسان کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے‘ یورپ اور اس کے پیروکار اپنے معاشرتی نظام پر بہت فخر کرتے ہیں لیکن اسلام نے جو معاشرتی اصول بنائے یہ یورپ کے اصولوں سے کہیں بہتر ہیں‘ اسلام سزا اور جزا کے نظام کی بات کرتا ہے تاکہ معاشرے میں توازن رہے‘ اور انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے‘ یہی انسانی حقوق کی بنیاد ہے‘ آج کل پوری دنیا میں سال بھر میں بہت سے ایام منائے جاتے ہیں‘ خواتین کا عالمی دن بھی اسی مناسبت سے منایا جاتا ہے لیکن یہ دن اب کچھ نئے نئے پیغام لارہا ہے‘ ماضی قریب کہہ لیں یا ماضی بعید‘ جب روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو مجاہدین جب روس پر فتح پاچکے تو امریکہ کود پڑا کہ ’’فتح‘‘کا پرچم لہرا سکے اسی دوران اس نے یہاں تحریک ترقی نسواں شروع کی‘ جس کا اثر اس وقت کے اشرافیہ نے سب سے پہلے لیا اور گورنر سندھ جنرل عباسی کی اہلیہ کی قیادت میں خواتین نے حقوق نسواں کے لیے جلوس نکالا گیا‘ لوگوں کا خیال تھا کہ اب گورنر کی چھٹی ہوجائے گی کہ ضیاء الحق کے دور میں کسی گورنر کی اہلیہ کیسے جلوس کی قیادت کر سکتی ہے؟ لیکن ضیاء دور میں یہ معاملہ گول کر دیا گیا‘ اور پاکستان میں اس وقت کی حکومت امریکی تحریک کے سامنے سرنگوں رہی‘ جس کے بعد سے وقت جس طرح گزرتا رہا‘ مختلف شکل میں یہ معاملہ بڑھتا ہی رہا اس ملک کا ’’اعلی تعلیم یافتہ طبقہ‘‘ سمجھتا ہے کہ یورپ نے خواتین کو بہت حقوق دیے ہیں‘ اس طبقے کا یہ دعوی سچ نہیں ہے‘ اصل سچ یہ ہے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے کی روائت ختم کی‘ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی‘ خواتین کو وراثت میں ان کا حق دیا‘ نکاح کے لیے مرضی کا اختیار دیا‘ اس کے مقابلے میںیورپ نے کیا دیا؟ یورپ نے جو دیا اسے ہم لیڈی ڈیانا کے انجام کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں‘ مغرب نے جو کچھ بھی دیا اصل میں وہ صرف لبرل ازم ہے‘ خاتون کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر اسے بھی گھر چلانے کے لیے معاشی بوجھ تلے دبا دیا‘ گھر چلانا اور گھر کی معیشت سنبھالنا تو مرد کی ذمہ داری تھی یورپ نے مرد کے کاندھوں کا بوجھ ہلکا کرکے اس میں خواتین کو بھی شامل کردیا اور دعوی کررہا ہے کہ اس نے خواتین کو حقوق دیے ہیں‘ یہ کیسے حقوق ہیں کہ اسے بھی ان ذمہ داریوں میں شامل کردیا جو فطرت نے اس کے لیے نہیں رکھی‘ قرآن مجید کی سورہ نور‘ سورہ احزاب اور بہت سی آیات ہیں جن سے ہم خواتین کے حقوق سمجھنے کے لیے رو شنی پاسکتے ہیں‘ لیکن ہم اسلام کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں‘ نہ جانے کیوںہم دفاعی پوزیشن پر رہتے ہیں‘ یورپ جو بھی کہتا ہے اور ہم اسے تسلیم کیے جاتے ہیں‘ بلاشبہ آج کے دور میں خواتین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یہ سچ ہے کہ خواتین معاشرے کا اہم ترین حصہ ہیں‘خاتون کوئی بھی ہو، چاہے وہ خاتون خانہ ہو یا ورکنگ ویمن ، اس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہوتا ہے اور اس گھر میں وہ ماں ، بہن ، بیوی ، بہو اور بیٹی کا رول ادا کرتی ہے جتنا اچھا ایک خاتون گھر کو چلاتی ہے اتنا مرد نہیں چلا سکتا یہ ایک خدا دار صلاحیت ہے جو عورت کو رب العزت کی طرف سے عطا کی گئی ہے جب عورت معاشرے کی بنیادی اکائی (گھر) کو ہر طرح کے نامساعدحالات میں بھی بخوبی چلا لیتی ہے اور گھر کو بکھرنے نہیں دیتی تو پھر ضروری ہے کہ عورت تعلیم یافتہ ہو گی تو اسے شعور اور اوراک حاصل ہو گا تعلیم کے بعد خواتین کے لئے سب سے اہم چیز صحت ہے‘ خواتین کی اچھی صحت ایک اچھے معاشرے کی ضامن ہوتی ہے اگر عورت کی صحت نہیں ، وہ تندروست نہیں تو یقیناً ایک بیمار معاشرہ ہی تشکیل پائے گا یہ بات لکھتے ہوئے دکھ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی خرابیاں بڑھ رہی ہیں وہیں منشیات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے‘ تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے‘ نشہ بڑھ رہا ہے اور نشہ آور ادویات فروخت ہورہی ہیں‘ ہماری خواتین کو خود اس بات کا جائزہ لینا چاہیے
بقیہ:صفحہ 7پر
کہ خواتین میں منشیات کے استعمال میں بتدریج اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس مسئلے کے علاج ضروری ہے‘ تشدد، معاشی مسائل اور بے روزگاری بھی ایک عنصر ہے والدین کی طرف سے بچوں کی دیکھ بھال کا فقدان بھی بہت اہم مسلئہ ہے گھر یلو تشدد، بچپن کے ناخوشگوار واقعات اور منشیات کے استعمال کا بھی آپس میں بہت گہرا تعلق ہے بیشتر خواتین جسمانی ، ذہنی اور مالی بد سلوکی سے تنگ آکر منشیات میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں‘ ہمارے معاشرے کی وہ خواتین‘جنہیں پارلیمنٹ میں بطور رکن اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے وہ آگے بڑھیں اور ایک منظم تحریک شروع کریں جس کے نتیجے میں خواتین منشیات سے محفوظ ہوسکیں‘ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اب نشے کا استعمال بطور فیشن یا ایڈوینچر سمجھا جاتا ہے یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے وزارت انسداد منشیات کے پلاننگ اینڈ مانٹیرنگ یونٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف شہروں میں کئے گئے سروے سے پتا چلتا ہے کہ منشیات کا سب سے زیادہ استعمال تعلیم یافتہ طبقے میں ہورہا ہے منشیات کی طرف راغب ہونے کا ایک اہم سبب بڑے شہروں میں قائم ہونے والے شیشہ کیفے بھی ہیں۔ شیشہ کیفے کا پرتکلف ماحول نوجوانوں کے لیے بڑا پرکشش ہوتا ہے قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی منشیات کی خرید وفروخت ہو رہی ہے آج کے دن عہد کریں‘ ہم اپنے معاشرے‘ اور قابل احترام خواتین کو منشیات سے بچانے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں گے میڈیا اور منبرومحراب سب اپنی ذمہ داری پوری کریں تاکہ منشیات کے استعمال کے رجحانات کو کنٹرول کیا جاسکے اہل علم اور اہل تعلیم اپنی تحریروں ، تقریروں، خطبات میں اس موضوع کو زیر بحث بنائیں، تاکہ اس لعنت سے نجات مل سکے اور ہماری بہادر خواتین‘ فاطمہ جناح‘ مریم مختار جیسی بہادر بن سکیں‘