جماعت اسلامی نے حقوق نسوں مارچ کا اعلان کیوں کیا؟؟؟

122

 

جماعت اسلامی نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کی ہے،خواہ وہ حکومتی سطح ہو یا معاشرتی سطح، خواتین کے لئے رفاہی کام کا سب سے بڑا نیٹ ورک جماعت اسلامی کے تحت ملک بھر میں کام کر رہا ہے۔مظلوم عورتوں کی قانونی امداد ہو یا عورتوں کی بہتری کے لیے قانون سازی، بے سہارا عورتوں اور بچوں کے سکونت ہو یا غریب بچوں کی تعلیم و تربیت، پسماندہ علاقوں میں عورتوں کی صحت ہو یا تربیت اولاد اور بہتر خاندان کی آگاہی، دعوت دین،اصلاح معاشرہ ملک کے چاروں صوبوں میں جماعت اسلامی کی خواتین اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔۔ عورت کے حقوق ہر دن ہر وقت ہیں۔جماعت اسلامی کا چارٹر قرآن ہے جو حقوق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو دیے تھے ہم بھی وہی مطالبہ کرتی ہیں۔
اس وقت پوری قوم لڑائی جھگڑے میں پڑ گئی ہے۔ اس لڑائی میں عورتوں کے حقوق کی آواز بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ آزادی نسواں کے نام پر مردوں سے ناحق تصادم کی فضا نے پورے ملک کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ا?ئین پاکستان جو کہ حقوق نسواں کا پاسدار ہے،ان حقوق پر عملدرآمد کو ہر سطح پر یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اللہ نے ماں کے قدموں میں جنت بیوی کو نصف ایمان اور بیٹی کو جنت کا باعث قرار دیا ہے۔عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر بازار کی زینت بننے سے منع فرمایا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جنت کے آسان راستہ کی طرف رہنمائی کی۔انہوں نے فرمایا” جو عورت پانچوں نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے وہ جنت میں داخل ہوگی” (بزاز مجمع الفوائد کتاب النکاح)
جماعت اسلامی پاکستانی عورت کو وہ تمام سماجی اور معاشی حقوق دلوانا چاہتی ہے جو دین اسلام خواتین کو دیتا ہے مگر ہمارا معاشرہ ان کی فراہمی میں رکاوٹ بنتا ہے. پاکستان کے کئی علاقوں میں عورت ایسے رسم و رواج اور روایات کی پابند ہے جو بحیثیت انسان اس کی حق تلفی کا باعث ہیں اور ہمارے دین کے منافی ہیں۔اللہ تعالی نے عورت کو نسلوں کی تربیت کی عظیم الشان ذمہ داری دے کر عورت کی نسوانیت کی حفاظت اور اس کی تکریم فرمائی ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جن معاشروں میں عورت کا استحصال ہوتا ہے وہاں زوال ہی زوال ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی خواتین شروع دن سے اب تک یہی مطالبہ کرتی آئی ہے کہ خواتین کو اسلام کی روشنی میں اپنے سیاسی اور معاشی حقوق دیئے جائیں۔خواتین کو اوقات کار سے زیادہ کام لینے پر پابندی، مفت پرائمری تک تعلیم،علیحدہ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف قانون پر موثر عمل درآمد کروایا جائے، مجبور اور بے سہارا خواتین کی کفالت کی ذمہ داری ریاست اٹھائے اور ان کے لئے باعزت اور محفوظ اقامتی ادارے قائم کیے جائیں۔ بڑے شہروں میں کام کے اوقات میں خواتین کوٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شادی میں اس کی رضامندی کا حق دیا جائے،وراثت میں حصہ اسے بخوشی ادا کیا جائے۔ اور ہر قسم کے گھریلو اور معاشرتی تشدد کی روک تھام کی جائے، خواتین کے گھر کی نگہبانی کے کردار کو اہم گردانا جائے اور اسے یہ قابل فخر احساس دیا جائے کہ وہ اپنی ذہنی علمی اور معاشرتی سرگرمیوں کے باعث اپنے گھر اور معاشرے کا اہم فرد ہے۔ جس کی بقا اور ترقی ہی میں گھر اور معاشرے کا استحکام مضمر ہے۔
اسلام نے عورت کو وہ عزت ووقار دیا ہے جس کا تصور مغرب اور مغرب زدہ لوگ نہیں کر سکتے۔ ” اہل مغرب نے عورت کو برابری کا جو مقام دیا ہے اسے عورت رکھ کر نہیں دیا بلکہ اسے آدھا مرد بنا کر دیا ہے, وہ چاہتے ہیں کہ عورت وہ تمام کام بھی کرے جو مرد کرتا ہے, لیکن ظاہر ہے کہ مرد وہ سارے کام نہیں کر سکتا جو عورت کرتی ہے، دراصل وہ چاہتے ہیں کہ عورت اپنے وہ فرائض بھی انجام دے جو فطرت نے اس پر ڈالے ہیں جن کو مرد انجام دے ہی نہیں سکتا اور اس کے ساتھ وہ ان فرائض کو بھی سنبھالنے میں مرد کے ساتھ آکر برابر کا حصہ لے جو فطرت نے مرد کے اوپر ڈالی ہیں گویا وہ عورت پر تو ڈیڑھ گنابار ڈالنا چاہتے ہیں اور مرد پر آدھا بار اور اس کا نام انہوں نے رکھا ہے ”عورتوں اور مردوں کی مساوات”۔ (ازمولانا مودودی)
جماعت اسلامی خواتین معاشرے کے استحکام کے لئے خاندان کا استحکام ضروری سمجھتی ہے اور خاندان کے استحکام کے لیے رشتوں کا احترام اور اجتماعی زندگی میں توازن چاہتی ہے درحقیقت سماجی توازن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب مرد اور عورت دونوں اللہ کی متعین کردہ ذمہ داریوں کے دائروں سے فرار ہونے کی بجائے انہیں نبھانے کی کوشش کریں۔