نگہت ہاشمی
حجاب ساری دنیا میں مو ضوع بحث ہے، کبھی آپ نے سو چا کیوں؟
ساری دنیا کے ممالک حجاب پر پا بند ی عائد کر کے اپنے آپ کو فاتحین میں شامل کر کے فخر محسوس کر تے ہیں ،آخروجہ کیا ہے؟
حجاب کا لفظ سنتے ہی ذہن پر دھند سی کیوں چھا نے لگتی ہے ؟
کیا حجاب پر پا بندی انسانی حقوق کی پا مالی ہے یا پاسداری ؟
حجاب کے بارے میں غیر مسلم اتنے پر یشان کیوں ہیں ؟
حجاب سے کس کا نقصان ہےاور کس کا نفع ہے ؟
کیا آپ حجا ب کے بارے میں کسی الجھن میں ہیں ؟
کیا آپ حجاب کے بارے میں جاننا چا ہتے ہیں حجاب کیا ہے ؟
حجاب پر دہ ہے ، آڑ ہے ۔ حجاب روکنے والی چیز ہے ۔ حجاب دو چیزوں کے ما بین حائل ہو نے والی چیز ہے ۔حجاب کن دو چیزوں کے ما بین حائل ہو نے والا ہے ؟ حجاب کس سے روکنے والا ہے ؟روکنا کیوں ہے ؟ روکا کیوں جاتا ہے ؟کیا روکنا نقصان سے بچا سکتا ہے ؟ آپ بھی تو کسی ٹریفک سگنل پررکتے ہیں ۔کیوں رکتے ہیں آپ ؟ اس لیے کہ آپ جانتے ہیں کہ حادثات سے بچانے کے لیے روک لگائی گئی ہے ۔ ٹریفک کے بہاؤ کو رو کنے کے لیے یہ سب ضابطے بنائے گئے ہیں اور اگر لوگ ان کی پابندی نہیں کرتے تو ٹریفک قوانین کے مطا بق سرخ بتی پر نہ رکنے والے کا چا لان کیا جاتا ہے ۔بس زندگی کی مثال ایسی ہی ہے ۔ یہاں انسانی بہاؤ کو بر قرار رکھنے کے لیے رب العزت نے جو ضابطے دیئے ہیں ان ہی میں سے ایک ضابطہ حجاب ہے ۔
حجا ب ہماری پہچان ہے
حجاب ہمارے رب کا حکم ہے
حجاب ہمارے لیے عزت اور فخر کا نشان ہے
انسانی صحت کے لیے دواؤں کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹرز دوا تجو یز کرتے ہیں ۔ یہ ساری دوائیں میڈیکل سٹورز سے جب گھر پہنچتی ہیں تو بچوں کے بارے میں احتیاط کے پیش نظر دوا کے اوپر آپ لکھا ہوا پا تے ہیںکہ اس دوا کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔کیوں روک لگا دی ؟ بچوں کی آزادی کیوں سلب کر لی ؟ یہ روک بچوں کو اس دوا کے نقصان سے بچانے کے لیے ہے جو کسی کی تو صحت کا سبب بن سکتی ہے اور کسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ سب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بچوں کو نقصان سے بچانا چاہیے اس لیے دوائیںبچوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں ۔ بس یہی معاملہ زندگی کا بھی ہے ۔ زندگی میں اگر ہر چیز ہر ایک کی دسترس میں ہوتو کتنے بڑے بڑے سا نحے رونما ہو جائیں ۔ اسی لیے اصول ، ضابطے اور قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ جہاں پر شخصی حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے وہاں پر اس کیحد بندی بھی کی جاتی ہے
اسی طرح مردوں اور خواتین کے بارے میں رب العزت نے حد بندی کی ہےتا کہ معاشرے اور افراد کو نقصان سے بچا یا جا سکے ۔ معا شرے کو سب سے زیادہ نقصان پہچانے والی چیز بے حیائی اور فحاشی ہے ۔ جس پر ہر الہا می مذہب نے روک لگا ئی ہے ۔ جس معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی رواج پا تی ہے وہاں زنا عام ہو جاتا ہے اور نکاح کرنے سے لوگ گھبراتے ہیں ۔ زنا کے نتیجے میں پیدا ہو نے والی اولاد یا تو قتل کر دی جاتی ہے یاحقوق سے محروم انسان نفسیا تی مر یض بن جاتے ہیں ۔ فحاشی انسانی رشتوں کو قتل کرتی ہے ۔ فحاشی کے نتیجے میں انسانی اقدار پر زد پڑتی ہے ۔ لوگ اپنی اولاد کے قاتل اور ماں باپ کے نا فر مان بن جاتے ہیں ۔ فحاشی کے نتیجے میں ماں ، باپ گھروں سے نکالے جاتے ہیں ،بچے کوڑے کےڈھیر پر پھینک دیئے جاتے ہیں ۔ فحاشی عزت کی دھجیاں اڑانے کے لیے رواج دی جاتی ہے ۔ انسانیت کو نقصان اور خسارے سے بچانے کے لیے رب العزت نے فحاشی کو حرام قرار دیا ہے ۔ فحاشی اور بے حیائی کے سیلاب کو روکنے کے لیے رب العزت نے حجاب کا حکم دیا ہے ۔
یہ حجاب کیا ہے ؟
حجاب جبر نہیں ہے
حجاب آزادی ہے
حجاب آزادی ہے ا ن نظروں سے جن میں حیا نہیں ، جو آپ کی طرف بری نیت سے اٹھتی ہیں ۔ حجاب عورت کا حق ہے ۔ حجاب عورت کی زندگی ہے ۔ حجاب عورت کے لیے رب العزت کی پسند ہے ۔ حجاب محض ایک کپڑا نہیں ہے جس سے عورت خود کو چھپاتی ہے ۔ حجاب میں اس کے سو چنے کا انداز ، اس کی نظر ، اس کا چلنا پھرنا شامل ہے ۔ حجاب حفاظت ہے ۔ کیا آپ نے دیکھا ؟ ہر پھل ، ہر سبزی پر ایک محافظ ہوتا ہے ۔اس کا چھلکااس کا حجاب ہوتا ہے جو اس کو محفوظ کرتا ہے ۔ اگر آپ کو بغیر چھلکے کے پھل ملیں اور آپ حفظان صحت کے اصولوں کو جانتے ہوں تو کیا آپ ایسے پھل استعمال کر سکتے ہیں؟ کو ئی ایسے پھل استعمال نہیں کرنا چا ہتا کیونکہ ہر ایک جانتا ہے کہ چھلکے کے بغیر گو دے پر جراثیم آگئے ہو ںگے ۔چھلکے کے بغیر اس کو کھانے سے ہر ایک طبعی طور پر اس سے کراہت بھی محسوس کرتا ہے ۔
حجاب تو حسن کی حفاظت ہے ۔ کیا ہر قیمتی چیز کی حفا ظت نہیں کی جاتی ہے ؟ کون ہے جو اپنا سر مایہ ، اپنی چیک بک ، اپنی جیو لری کی حفاظت کرنا نہیں جانتا ۔ ہر قیمتی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ رب العزت نے عورت کو قیمتی بنایا ہے ۔ وہ ہیروں اور جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے کیو نکہ وہ ماں ہے ،وہ بیوی ہے ، وہ بہن ہے ، وہ بیٹی ہے۔عورت قیمتی ہے ۔ اس دنیا میں اصول بھی یہی ہے کہ ہر قیمتی چیز کی حفاظت کی جاتی ہے ۔کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے بدن کے وہ اعضاء جو زیادہ قیمتی ہیں وہ زیادہ بڑے حجاب میں ہیں ۔ آپ کا دل پسلیوں کے اندر ہے ،ہڈیوں کے ڈھانچے کے اندر ، ہڈیوں کا پردہ ہے پھر اس کے اوپر جلد کا پردہ ہے ۔ اللہ پاک نے کیا ہی خوب نظام بنایا ۔ آپ کا دماغ جھلیوں کے اندر ہے ۔جھلی کیا ہے؟ حجاب ہی تو ہے ۔اس جھلی کے اوپر اللہ پاک کے فضل و کرم سے کیسے ایک اور cover چڑھایا گیا ،اس محفوظ cover کے اندر دماغ ہوتا ہے جو جھلیوں کے اندر محفوظ ہوتا ہے۔پھراس کے اوپرکھوپڑی ہوتی ہے،کھوپڑی کے اوپر جلد ہے، جلد کے اوپر بال ہیں ۔ یوں دماغ کا ایک نہیں ،کئی کئی حجاب ہیں۔آپ کا دماغ قیمتی ہے تو اس کی حفاظت کتنی خوب صورتی سے کی گئی۔
آپ خشک میوے دیکھتے ہیں ،ان کے اوپر cover ہوتا ہے آپ بادام کو دیکھیں تو اس کے اوپر ایک پتلاساCover ہو تا ہے اس پر اکتفا نہیں کیا گیا اس کے اوپر ایک اور مضبوط سا چھلکا ہوتا ہےیہ حجاب ہی تو ہے حفاظت کے لیے آپ اخروٹ کھاتے ہیں اخروٹ کو اللہ پاک نے کس طرح سے ایک مضبوط حجاب کے اندر چھپا دیا آپ انار کو دیکھیں اس کے دانوں کے اوپر کیسے ایک باریک جھلی ہو تی ہے پھر اس کے اوپر ایک پورا cover ہوتا ہے ۔ چھلکا کیسا پردہ ہے کہ جس نے دانے دانے کو چھپا دیا آپ اگر دیکھنا چا ہیں ایک ایک چیز کو دیکھتے چلے جائیں ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے کتنی خوبصورت بات کی کہی ہے : حجاب آپ کے اور لوگوں کے درمیان رکاوٹ نہیں ۔ حجاب آپ کے اور لو گوں کی برائی کے در میان رکاوٹ ہے ۔
حجاب حیا کا نشان ہے ۔ حجاب ایمانی عمل ہے ۔ حجاب عزت کی علا مت ہے ۔ حجاب عورت کی آزادی ہے ۔ اگر آپ کی تہذیب میں کو ئی عورت یہ حق رکھتی ہے کہ اپنے بدن کو سب کے سامنے کھول دے تو آپ عورت کو یہ حق کیوں نہیں دیتےکہ وہ اپنے آپ کو ڈھانپ سکے ۔
مد ینہ کی عورت آزاد تھی
کیسے نبی ؐنے انہیں آزادی کا پروانہ دیا توانہوں نے فوراًقبول کرلیا
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلی مہاجرات پر رحمت فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا آیت کریمہ﴿وليضربن بخمرہن على جيوبہن ﴾ ’’ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں ‘‘ (سورۃ النور : ۳۱) نازل فرمائی تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑااور ان سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا ۔ اس طرح سے عورت آزاد ہوئی تھی۔(ابوداؤد:4102)
وہ عورتیں کیسے مضبوط ایمان والی تھیں کہ ادھر حکم نا زل ہو ا توراتوں رات حجاب تیار ہو گئے ، چادریں بن گئیں ۔ وہ کسی سے متاثر نہیں تھیں ۔ وہ کسی کی پابند بھی نہیں تھیں ۔ انہوں نے اس کے لیے کسی اور سے اجازت بھی نہیں لی کیو نکہ وہ آزاد عورتیں تھیں ۔ انہوں نے اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا ۔
سیدہ ام عطیہ ؓ نے بیان کیا :رسول اللہ ؐنے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں عورتوں کو باہر نکالیں ، دوشیزہ ، حائضہ اور پردہ نشیں عورتوں کو باہر نکالیں ، لیکن حائضہ نمازسےدور رہیں ۔ وہ خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی ۔ آپ ؐنے فرمایا : اس کی ( کوئی مسلمان ) بہن اس کو اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے ۔(صحیح مسلم:2056)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرکسی کی اتنی بڑی مجبوری ہے کہ اس کے پاس چادر نہیں ہے تو دو عورتیں ایک چا در میں لپٹ کر جاسکتی ہیں لیکن حجاب ضرور کریں گی ۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے ، جب سوار ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے ۔(ابو دائود: 1833)
دو فرائض آمنے سا منے آ گئے ۔ ایمان والی عورت پر حجاب فرض ہے اور حالت احرام میں چہرے کو کھلا رکھنا وا جب ہے ۔ اس کاحل یہ نکالا کہ نقاب نہیں باندھا چا دریں پاس رکھیں ،جب کو ئی اجنبی آجائے تو پھر چہرے پر چادر لٹکا لیں ۔ جب آپس میں ہوں تو چادر ہٹا لی ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ حالت احرام میں بھی بے پر دگی کی اجازت نہیں دی گئی ۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ بیان کر تی ہیں کہ مردوں کی وجہ سے ہم احرام کی حالت میںچہرے ڈھانپ لیا کرتی تھیں۔( ابن خز یمہ ، مستدرک حاکم )
سیدہ عا ئشہؓ اپنے اوپر بہتان لگائے جانے والاواقعہ بیان کر تے ہو ئے فرماتی ہیں کہ صفوان بن معطل سلمی الذکوانیؓ شکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ جب( قریب آ کر ) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔(صحیح بخاری 4141)
سیدہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقعیس کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی ، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میںرسول اللہ ؐسے اجازت حاصل نہ لے لوں ، ان سے نہیں مل سکتی ۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا ، دودھ پلانے والی تو ابوالقعیس کی بیوی تھی ۔ پھر نبی کریم ؐ تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابوالقعیس کے بھائی افلح ؓ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی ، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک نبی کریمؐ سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کر سکتی ۔ اس پر نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کر دیا ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا ، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں ۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں ۔ عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیز یں (مثلاً نکاح وغیرہ) حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں ۔(صحیح بخاری:4796)
اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ سیدہ عائشہ ؓپردے کا کتنا زیادہ لحاظ رکھتی تھیں کہ اپنے رضاعی چچاسے اس وقت تک نہ ملیں جب تک رسول اللہؐ سےاس بارے میں تسلی نہ کرلی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓنےبیان کیاکہ مسلمان عورتیں رسول اللہؐ کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔ (بخاری:578)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐنے فرمایا: ”عورت ( سراپا)پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔“ ـ(ترمذی: 1173 )
سیدناابن عمرؓ سے روایت ہےکہرسول اللہ ؐنے فرمایا: ”جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا“، ام سلمہؓ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکا لیں“، انہوں نے کہا: تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے، آپ ؐنے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکائیں اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔‘‘ (ترمذی:1731) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ چادر کہاں تک ہو نی چاہیے ۔
حجاب ہمارے رب کا حکم ہے
حجاب عورت کی عزت کی علا مت ہے
حجاب عبا دت ہے
حجاب اللہ تعالیٰ کی عبا دت کا مظہر ہے
آئیں اللہ تعالیٰ کی یہ عبادت کرلیں! اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے ۔