افغانستان میں معاہدہ امن اور بھارت

531

 

 

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ امن نے بھارت میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش تو یہی تھی کہ ایسا کوئی معاہدہ نہ ہونے پائے اور وہ امریکا کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرتا رہے۔ پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں بھارت کے قونصل خانے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں پوری طرح ملوث تھے۔ وہ بلوچستان میں علیحدگی اور بغاوت کی مسلح تحریکوں کی سرپرستی کررہے تھے، انہیں اسلحہ فراہم کیا جارہا تھا، نقد امداد دی جارہی تھی، جب کہ باغی عناصر کو دہشت گردی اور تخریب کاری کی تربیت بھی دی جارہی تھی۔ یہ سارے کام امریکا اور کٹھ پتلی افغان حکومت کی ناک کے نیچے ہورہے تھے لیکن کوئی بھارت کو روکنے اور ٹوکنے والا نہ تھا۔ بھارت اس کے بدلے میں افغانستان کے متعدد ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا تھا وہ دریائے کابل پر ڈیم بنانے میں بھی افغان حکومت کی مدد کررہا تھا۔ اس طرح وہ اپنے حریف پاکستان پر دریائے کابل کا پانی بند کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف افغان حکومت کو ممنون احسان کرنا مقصود تھا۔ اب امریکا طالبان معاہدہ امن نے بھارت کی بہت سی خواہشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ افغان طالبان بھارت کے کھلے کھلے حریف ہیں وہ اس کے استعماری مقاصد کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے امن معاہدے کا خیر مقدم کرنے کے بجائے نہایت محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں معاہدہ امن بھارت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اگر اس معاہدے پر کامیابی سے عمل ہوا اور انٹرا افغان ڈائیلاگ مثبت اور نتیجہ خیز رہے تو افغانستان میں بھارت کے اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات کو شدید زک پہنچے گی اور اس کے لیے افغانستان میں قدم جمائے رکھنا دشوار ہوجائے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ معاہدہ امن پر دستخط کی تقریب میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے شرکت کی۔ تقریب میں معاہدہ امن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں پاکستان کی سہولت کاری کے کردار کو کھلے دل سے سراہا گیا۔ اس حوالے سے بعض خوشامدیوں کا کردار سہولت کاری کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ معاہدہ فریقین کی امن کی خواہش کی بنیاد پر طے پایا ورنہ مذاکرات تو اس سے پہلے بھی کئی بار ہوچکے ہیں لیکن آخری مرحلے پر پہنچنے سے پہلے ٹوٹتے رہے ہیں۔ اب کی دفعہ فریقین کی مخلصانہ کوشش اور امریکی صدر کی سیاسی ضرورت نے اسے ممکن بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا وعدہ پورا کرنے کی بنیاد ہی پر آئندہ انتخابات جیتنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کی تلّون مزاجی کے سبب امن معاہدے کو ان سے بھی خطرہ ہے۔
ذکر ہورہا تھا معاہدہ امن پر دستخط کی تقریب کا جس میں 50 ملکوں نے نمائندے شریک ہوئے۔ افغانستان میں بھارت کے سفیر نے بھی اس تقریب میں شرکت کی لیکن اس نے کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کی درپردہ شدید مزاحمت کے باوجود اس معاہدے کا طے پاجانا اس کی زبردست ناکامی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ البتہ بھارت نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں سرپرستی کی ہے۔ دو سال قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کا ہولناک واقعہ بھی اس سرپرستی کا نتیجہ تھا۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے افغان کاز کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان میں تخریبی کارروائی کرنے کے بعد افغان کٹھ پتلی حکومت کی پناہ میں چلے جاتے ہیں اور پاکستان ان کے خلاف کچھ نہیں کرپاتا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ افغان طالبان کے مخالف تمام گروپوں کو بھارت کی سرپرستی حاصل ہے۔ بھارت ایک طرف اشرف غنی کی کابل حکومت کی حمایت کرتا ہے تو دوسری طرف وہ عبداللہ عبداللہ کے سر پہ بھی ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ یہ دونوں دھڑے طالبان کے مخالف تو ہیں ہی آپس میں بھی ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات میں جہاں موجودہ صدر اشرف غنی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے وہیں عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ امریکا نے فی الحال اشرف غنی کو نئی صدارتی مدت کا حلف اٹھانے سے روک دیا ہے جب کہ عبداللہ عبداللہ بھی حالات کے بدلے ہوئے تناظر میں خاموش ہیں۔ امن معاہدے کی کامیابی کا انحصار طالبان اور افغان گروپوں کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات پر ہے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا اصل خطرہ بھارت کی جانب سے ہے۔ طالبان کے مخالف تمام افغان دھڑے بھارت کے زیر اثر ہیں وہ انہیں مالی امداد بھی دیتا ہے اور ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ امن معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ان سے کام لے سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو معاہدہ امن کو سبوتاژ کرنے کا عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ صدر اشرف غنی نے معاہدے کی اس شق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار اور طالبان ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔ جب کہ طالبان نے بھی افغان فورسز پر حملے شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کیے جائیں گے جب کہ کابل حکومت کی فورسز کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا طالبان مذاکرات میں اشرف غنی کو شریک ہی نہیں کیا گیا تھا۔ طالبان کے ساتھ ان کے اور دیگر افغان گروپوں کے مذاکرات اب دوسرے مرحلے میں ہوں گے۔ یہی وہ مذاکرات ہیں جن پر افغانستان میں پائیدار امن کا انحصار ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کسی صورت بھی بھارت کے مفاد میں نہیں ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔