عالمی یوم نسواں کے موقع پر پہلی بار پاکستان میں ’’آزاد خیال عورتوں‘‘ نے واضح طور پر اپنی الگ شناخت ظاہر کردی، ایسا کرکے یقینا وہ خود شرمسار ہوں گی۔ تاہم یہ بات اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ دیندار اور بلا کسی مذہبی تفریق کے حیادار خواتین کی اکثریت نے ازخود ان سے جدا ہوکر یوم عالمی خواتین منایا۔ جس کی وجہ سے عالمی یوم خواتین پاکستان میں دو حصوں میں تقسیم تو نظر آیا مگر بڑا حصہ الحمدللہ دیندار، حیادار اور غیرت مند خواتین کی کثیر تعداد والا تھا۔ اس حصے میں شامل خواتین اصل مقاصد کے لیے مارچ اور مظاہرے کررہی تھیں۔ وہ ملک بھر کی ان مظلوم خواتین کی بات کررہی تھیں اور ان سے اظہار یکجہتی کررہی تھیں جو عدم برداشت اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان خواتین کو بلاتفریق ملک کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن دوسرا گروہ یا حصہ ان عورتوں کا تھا جو آزاد خیال ہونے کے ساتھ، مزید آزادی کے حصول کے لیے مخصوص شاہراہوں اور عمارتوں میں ’’بھیڑ‘‘ کے طور جمع تھیں جن میں اکثریت سرخ کپڑوں میں ملبوس ہوکر اپنے آپ کو ’’سرخا‘‘ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ سرخ رنگ انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے مگر عورتوں کے اس عالمی دن کے موقع پر سرخ رنگ سے اپنی الگ شناخت ظاہر کرنے والی یہ عورتیں کسی بھی لحاظ سے انقلابی سے زیادہ بے شرم اور بے حیا دکھائی دے رہیں تھیں۔ ان کی زبانوں سے نکلنے والے نعرے ’’والد سے لیں گے آزادی‘‘، ’’ہم سب سے لیں گے آزادی‘‘ اور لیں گے ہم ہر چیز کی آزادی‘‘۔ ان نعروں کے ساتھ نعرے لگانے اور لگوانے والیوں اور والوں نے جو پوسٹر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اور جن پر تحریر تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، ’’رشتے نہیں حقوق چاہیے‘‘ اور “Divorce Be Happy” کے علاوہ ایسے غلیظ سلوگن درج تھے جنہیں یہاں نہیں لکھا جاسکتا اور نا ہی لکھنا چاہوں گا کیونکہ میرا معاشرہ نہ اتنا آزاد ہے اور نہ میری سوسائٹی کو ایسی آزادی کی ضرورت ہے۔
’’یوم عورت‘‘ کے مقاصد کو آزاد ذہن کی عورتوں نے جس قدر آلودہ کیا اور کررہی ہیں اس سے قبل اس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن شاید قصور ہمارا ہی ہے۔ عورت کے حقوق کے نام پر مادر پدر آزادی کی بات میرے ملک کا نعرہ نہیں ہے، یہ تو مغرب سے ڈالروں کی وجہ سے یہاں لگایا جارہا ہے، میری بیٹیاں ایسی نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نعرے اور شور شرابہ صرف نظریہ ضرورت کے لیے کیا گیا ہے۔ کیونکہ مغرب نے وطن عزیز کو غربت کے ساتھ مہنگائی کے جس چرخے میں پھنسادیا ہے وہ بھی ہیبت ناک ہے۔
اللہ کا کرم ہے کہ اس کے باوجود اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والی مذہبی و سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کی تحریک کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ’’سرخ انقلابیوں کی آزاد عورتوں کے شو کو بری طرح ناکام کیا۔ ان آزاد عورتوں نے اگرچہ کراچی کے فیرئیر ہال اور اس سے منسلک باغ جناح اور اسلام آباد میں جمع ہوکر اپنے آپ کو ’’بے نقاب‘‘ کرتے ہوئے خود اپنی بے عزتی کرائی اور آشکار ہوگئیں جس کے نتیجے میں یقین ہے کہ وہ آئندہ ایسا کچھ کرنے سے باز رہیں گی۔ ’’والد سے لیں گے آزادی‘‘ کے نعرے بلند کرنے والی عورتوں کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ انہیں ایسا کرکے سوائے بدنامی، بے شرمی اور عبرت ناک تنہائی کے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ جس مغرب سے عالمی یوم آزادی ہر سال منانے کی شروعات ہوئی اس کا بھی مقصد صرف عورتیں کے جائز حقوق کا حصول تھا۔ وہ لوگ بھی اپنے باپ بھائیوں اور دیگر رشتوں سے ازاد ہوکر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے نہیں لگائے تھے۔
یوم خواتین کے پس منظر کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا میں خواتین نے اپنی تنخواہ کے مسائل کے متعلق احتجاج کیا، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑ سوار دستوں کے ذریعے کچل دیا گیا، پھر 1908 میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے اس طرح برسوں سے اب تک 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ چین، روس، نیپال، کیوبا اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے اور دیگر ممالک کی طرح برصغیر میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی دن کو کسی کے نام سے منا لینا کیا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے؟۔ موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی مذہبی اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق بہترین تربیت کی جائے تاکہ وہ آنے والی نسلوں کی بہتر تربیت کرسکیں۔