ہمارے جسم وجاں کا مالک کون ہے!

465

اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ہمارے جسم وجاں کا مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، اُسی نے اسے پیدا کیا، وہی اسے فنا کرے گا اور آخرت میں دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور (آخرت میں) اسی سے تمہیں دوبارہ (زندہ کر کے) نکالیں گے، (طہٰ: 55)‘‘، نیز فرمایا: ’’بھلا بتائو کہ تم جو نطفہ (رحم میں) گراتے ہو، کیا اُس سے (انسان کی) تخلیق تم کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں، ہم ہی نے تمہارے درمیان موت (کا وقت) مقدر فرمادیا ہے اور ہم عاجز نہیں ہیں کہ تمہارے بدلے میں تم جیسے اور پیدا کردیں اور تمہیں از سرنو پیدا کردیں جس کو تم بالکل نہیں جانتے اور بے شک تم پہلی پیدائش کو خوب جانتے ہو تو کیوں سبق حاصل نہیں کرتے، (الواقعہ: 58-62)‘‘۔
ان آیات میں تین حقیقتوں کا بیان ہے: یہ کہ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے، وہی اسے فنا کرے گا اور پھر قیامت قائم ہونے پر دوبارہ اسے زندہ کر کے اٹھائے گا۔ گزشتہ امتوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب انسان نے زمین پر طاقت پکڑلی اور اقتدار حاصل کیا تو سب سے پہلے وہ اپنے خالق کو بھلا بیٹھا اور خدائی دعوے کرنے لگا، نیز اسی دنیوی زندگی کو ابدی اور دائمی سمجھنے لگایا موت کو فنائے کُلّی سمجھ بیٹھا، قرآن کریم میں ہے: (1) ’’اور کافروں نے کہا: جب ہم ہڈیاں ہوجائیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا، آپ کہیے: تم پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہو تو عن قریب وہ کہیں گے: ہمیں دوبارہ کون پیدا کرے گا، آپ کہیے: وہی (خالق) جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اس پر وہ (تمسخر کے انداز میں) آپ کی طرف سر ہلائیں گے اور کہیں گے: تو یہ کب ہوگا، آپ کہیے: عجب نہیں کہ وہ وقت قریب آپہنچا ہو، جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے چلے آئو گے اور تم یہ گمان کرو گے کہ تم دنیا میں تھوڑی ہی مدت ٹھیرے تھے، (بنی اسرائیل: 49-52)‘‘۔ (2) ’’پس رہے عاد تو انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تھے، (حم السجدہ: 15)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اس زمین پر جو کوئی بھی ہے، (اپنے مقررہ وقت پر) فنا ہونے والا ہے اور آپ کے رب کی ذات باقی رہنے والی ہے جو عظمت اور بزرگی والا ہے، (الرحمٰن: 26-27)‘‘۔
سو انسانی جان اللہ کی مخلوق اور اُسی کی مِلک ہے، انسان کو اپنی جان پر مالکانہ تصرُّف کا حق حاصل نہیں ہے، وہ اُسے صرف اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرسکتا ہے، وہ اسے تلف کرنے کا بھی مُجاز نہیں ہے، یہ اختیار صرف اور صرف حقیقی خالق ومالک کا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا: (1) ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، (البقرہ: 195)‘‘، (2) ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے، (النساء: 29)‘‘۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے انسان کو بھی قتل کرتا ہے تو قرآن نے اُسے قتلِ نفس سے تعبیر فرمایا، کیونکہ بے قصور انسانی جان کی حفاظت انسانیت کا اجتماعی حق ہے، اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک بے قصور انسانی جان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے اور ایک بے قصور انسانی جان کے تحفظ کو پوری انسانیت کی بقا سے تعبیر فرمایا ہے، ارشاد ہوا:
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کر دیا کہ جس شخص نے قصاص کے بغیر یا زمین میں فساد پھیلانے (کے جرم کے بغیر) کسی (بے قصور) شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی (بے قصور) شخص کی جان بچالی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچالیا، (المائدہ: 32)‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خود کُشی یعنی اپنی جان خود تلف کرنے کو حرام قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے: (1) ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا، وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا، وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا، جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا، جس نے کسی پہاڑ (یا بلند جگہ) سے چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں) لڑھکتا چلا جائے گا، (مسلم)‘‘۔
(2) ’’سیدنا جابر ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبی ؐ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ سیدنا طفیل بن عمرو دَوسی اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی، سو وہ بیمار ہوگیا اور فریاد کرنے لگا۔ پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر) اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیا، پس اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ (کثرت سے خون بہننے کے سبب) فوت ہوگیا۔ پھر اسے طفیل بن عَمرو نے اپنے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا، انہوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا ہے، طفیل نے اس سے پوچھا: آپ کے ربّ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا، اس نے جواب دیا: نبی ؐ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں پر ڈاٹا بندھا ہوا دیکھ رہا ہوں، اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے، ہم ہرگز اسے درست نہیں کریں گے، پھر جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ؐ کے سامنے بیان کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے، (مسلم)‘‘۔ صحابۂ کرام کی بخشش کے لیے تو رسول اللہ ؐ موجود تھے، آج جو لوگ خود کشی کو دکھوں کا مداوا سمجھتے ہیں، وہ ذرا سوچیں کہ آخرت کا دائمی عذاب بھگتنا آسان ہے یا دنیا کی کوئی مصیبت یا مشقت جس سے نجات کے لیے وہ اپنے آپ کو خودکشی پر آمادہ کرتا ہے۔
قرآن وحدیث کی ان واضح تعلیمات کی روشنی میں کیا بندے کو یہ نعرہ زیب دیتا ہے: ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘، مرضی تو مالک کی چلتی ہے، آپ خود اپنے خالق تو نہیں ہیں، پس اللہ کی تخلیق میں اس کی مرضی کے خلاف تصرُّف کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا، کیا یہ اللہ کی ذات سے صریح بغاوت نہیں ہے، کیا اسلام کے نام پر قائم ریاست میں اسلام کے نام لیوائوں کو ایسے نعرے بلند کرنے کی کھلی آزادی ملنی چاہیے: ’’حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔
شرعی حجاب کو ردّ کرنے کے لیے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ نعرہ لگایا جاتا ہے: ’’نظریں تمہاری گندی اور پردہ میں کروں‘‘۔ اگر اُن میں قبولِ حق کی ادنیٰ سی رمق بھی باقی ہے تو اس حدیث سے سبق حاصل کریں:
’’سیدہ اُمِّ سلَمہ بیان کرتی ہیں: میں اور میمونہ رسول اللہ ؐ کے پاس تھیں کہ (نابینا صحابی) عبداللہ بن اُمِّ مکتوم آپ کے پاس داخل ہوئے اور یہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تم دونوں اس سے پردہ کرو، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ نابینا ہیں، نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں، تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا: تم دونوں تو نابینا نہیں ہو، کیا تم دونوں اُسے دیکھ نہیں سکتیں، (سنن ترمذی)‘‘۔ اس حدیثِ مبارک سے واضح ہوا کہ غیرمحرم کو دیکھنے سے صرف مرد پر پردہ لازم نہیں ہے، عورت پر بھی لازم ہے، مقامِ غور ہے کہ امہات المؤمنینؓ کے بارے میں تو کسی برے خیال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن احکامِ شریعت کا اطلاق اُن پر بھی یکساں ہوتا تھا، حدیث پاک میں ہے:
’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ابنِ آدم پر اُس کے حصے کا زنا لکھ دیا ہے، وہ لازمی طور پر اُسے پائے گا، پس آنکھ کا زنا (بری نیت سے غیر محرم کو) دیکھنا ہے، زبان کا زنا (جنسی لذت کی) باتیں کرنا ہے اور نفس تمنّا اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس سب کی تصدیق کرتی ہے اور جھٹلاتی ہے، (بخاری)‘‘، یعنی یا تو انسان بے حیائی کی ان حرکتوں سے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگر کسی مرحلے میں توفیقِ باری تعالیٰ شامل ہوجائے تو بچ جاتا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’(اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص پر اپنی رحمت کا خصوصی سایا فرمائے گا) جسے کسی اعلیٰ سماجی حیثیت والی حسین عورت نے دعوتِ گناہ دی، تو وہ یہ کہہ کررک گیا: ’’مجھے اللہ کا خوف ہے‘‘۔ (بخاری)‘‘، حدیث پاک میں ہے:
’’سیدنا شمّاس بیان کرتے ہیں: ایک عورت اُمِّ خَلَّاد نقاب پہنے نبی ؐ کے پاس آئیں، وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئی تھیں، اُن سے کسی صحابی نے کہا: آپ اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئی ہیں اور نقاب پہنے ہوئی ہیں، اُمِّ خَلَّاد نے جواب دیا: اگرچہ میں نے اپنے بیٹے کو کھودیا ہے، لیکن میں اپنی حیا کو نہیں کھوئوں گی، رسول اللہؐ نے فرمایا: تمہارے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کے برابر اجر ہے،
اس نے عرض کی: یارسول اللہ! ایسا کیوں ہے، آپ ؐ نے فرمایا: کیونکہ اسے اہلِ کتاب نے قتل کیا ہے، (سنن ابودائود)‘‘۔ شارحین نے لکھا ہے: ’’اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مطلق کافر کے ہاتھوں قتل ہونے کے مقابلے میں اہلِ کتاب کے ہاتھوں قتل ہونے کا اجر زیادہ ہے‘‘۔ کاش کہ آج کی آزاد منش مسلمان عورتیں سیدہ اُمِّ خلّاد کی سیرت سے سبق حاصل کریں۔الغرض مسلمان کے جسم وروح پر اللہ کا حکم ہی نافذ ہو گا تو فحاشی وعریانی کی اللہ کے قانون میں ہرگزاجازت نہیں ہے اور بے حجابی اور بے حیائی بھی اس کے حکم سے صریح بغاوت ہے، ارشاد فرمایا: ’’بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جائو، خواہ وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، (الانعام: 151)‘‘۔ نیز بے حیائی اور بے غیرتی کے آخری درجے کی بابت فرمایا: ’’اور زنا کے قریب نہ جائو، بے شک یہ بے حیائی (کی انتہا) ہے اور بُرا راستہ ہے، (بنی اسرائیل: 32)‘‘۔