دو صدور، افغانستان میں بد امنی کا نیا آغاز

404

تمام تر اندیشوں کے عین مطابق افغانستان میں امن کا عمل متاثر ہے ۔ جب سے دوحہ میں طالبان کے رہنماؤں اور امریکی حکام کے مابین امن معاہدہ طے پایا ہے ، اسی دن سے افغانستان میں امن کا عمل متاثر ہے یا کردیا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک یا شبہ کی بات نہیں ہے کہ افغانستان میں جو لوگ بھی ایوان اقتدار میں ہیں ، ان سب پر امریکا ہی کا ہاتھ ہے ۔ لڑاؤ اور حکومت کرو ، یہ امریکا و یورپ کی پرانی پالیسی ہے ۔ اسی پالیسی کے تحت روس نے جاتے ہوئے افغانستان میں کسی مستحکم حکومت کے قیام کی کوششوں سے نہ صرف گریز کیا تھا بلکہ ایسی ہر کوشش کو سبوتاژ کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ پوری دنیا نے دیکھا ۔ اب پھر امریکا نے وہی تاریخ دہرائی ہے ۔ جب امریکا نے امن معاہدہ امارت اسلامی کے جھنڈے تلے طالبان سے کیا ہے تو اس کا سیدھا سادا مطلب ہی یہ ہے کہ افغانستان کی سب سے بااثر قوت ہی طالبان ہیں اور انہیں ہی حکومت بنانے کی دعوت دینی چاہیے ۔ اس وقت افغانستان میں دو صدور نے حلف اٹھا لیے ہیں اور اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا ہے جس کا مطلب افغانستان میں بدامنی اور لاقانونیت ہے ۔ عبداللہ عبداللہ ہوں یا اشرف غنی ، صرف اسی کو حکومت بنانے کا حق ہے جسے افغانوں نے منتخب کیا ہو ۔اگر امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کے زیر اہتمام شفاف انتخابات ہوئے ہوتے تو یہ مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ افغان مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ امریکا عالمی نمائندوں کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے اور جسے بھی افغان عوام منتخب کریں، اقتدار کی باگ ڈور اس کے حوالے کردی جائے ۔ اپنی کٹھ پتلی حکومت کے قیام کی خواہش نے پہلے ہی افغانستان میں بہت خون خرابا کیا ہے ۔ پاکستان کو بھی اس سلسلے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔ افغانستان میں ابھی صدر کا حتمی فیصلہ ہو انہیں ہے کہ پاکستان نے اپنا وزن اشرف غنی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے ۔ محتاط رویہ یہ تھا کہ پاکستان دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرتا اور جس کے بارے میں فیصلہ ہوتا ، پاکستان اس کے ساتھ معاملات کرتا ۔ پاکستان کو بھی یہی کوشش کرنی چاہیے کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی پسند کی حکومت کے بجائے افغانوں کے حقیقی نمائندے اقتدار میں آئیں ۔ افغانستان میں امن سے پاکستان کی ترقی براہ راست منسلک ہے ۔ افغانستان میں امن کا مطلب ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور پاکستان پر سے معاشی بوجھ میں کمی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امن کے نتیجے میں پاکستان میں بھی بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئے گی ۔ افغانستان میں امن کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد ایک مرتبہ پھر محفوظ ہوجائے گی اور پاکستان کو محض بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد اور سمندری حدود کی حفاظت کی ضرورت ہوگی اور یوں پاکستان کا دفاعی بجٹ بھی ایک حد تک کم ہوجائے گا ۔ ان عوامل کو مدنظر دیکھتے ہوئے پاکستان کو افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کے قیام کی کوششیں کرنی چاہییں جو کہ افغان عوام کی حقیقی ترجمان بھی ہو ۔ جب تک افغانستان میں وار لارڈز کا قبضہ رہے گا ، اس وقت تک افغانستان میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ یہ امر مدنظر رہنا چاہیے کہ بھارت کی افغانستان میں انتہائی دلچسپی ہے جس کی واحد وجہ بھارت کی پاکستان دشمنی ہے ۔ بھارت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن قوتیں برسراقتدار آجائیں تاکہ وہ انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرسکے ۔ بھارت کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہاں پر امن قائم ہوتا ہے یانہیں ، اس کی دلچسپی صرف اس میں ہے کہ پاک افغان سرحد بدامنی کا شکار رہے اور پاکستان پر مہاجرین کا بوجھ ختم نہ ہونے پائے ۔ افغانستان سے صرف امریکا کا انخلا ہی کافی نہیں ہے ۔ اب امریکا افغانستان سے اپنے سازوسامان کو واپس بھی لے جائے گا جس کے لیے وہ پاک سرزمین کو استعمال کرے گا ۔ پہلے بھی امریکا نے پاکستان کی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی ادائیگی نہیں کی ہے ۔ اسی طرح نیٹو نے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کا سات ارب روپے کا بل بھی ابھی تک ادا نہیںکیا ہے ۔ پاکستان کو امریکی انخلا سے قبل امریکی حکومت سے بھی اپنا حساب بیباق کرلینا چاہیے ۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ کراچی سے طورخم تک اور کراچی سے چمن تک کی ہائی ویز انتہائی بھاری ٹینکوں ، ہموی گاڑیوں اور دیگر بھاری فوجی سازوسامان کی نقل و حمل کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں ،امریکیوں نے اس سازوسامان کی ترسیل کے دوران ٹول ٹیکس و چنگی کی بھی ادائیگی نہیں کی مگر نہ وہ اس رقم کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پاکستان اس کی وصولی میں سنجیدہ ہے ۔ زیادہ پرانی بات نہیںہے کہ امریکا نے پاکستان کو اس کے خریدے گئے F16 طیاروں کی حوالگی سے انکار کردیا تھا ۔ کئی برسوں بعد جب یہ مسئلہ حل ہوا تو امریکا نے ان طیاروں کو پارک کرنے کے چارجز بمعہ سود وصول کرلیے تھے ۔ اب پاکستان میں بندرگاہ ، فضائی حدود ، زمینی راستے سب استعمال کیے گئے مگر امریکا اور ناٹو دونوںہی اس کے چارجز کی ادائیگی سے انکاری ہیں اور پاکستان کو بھی اس کی وصولیابی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ٹوٹی پھوٹی ہائی ویز کی تعمیر نو کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کو بھاری سود پر قرض لینا پڑا بلکہ سڑکیں ٹوٹنے کی وجہ سے سیکڑوں حادثات بھی رونما ہوئے جس میں قیمتی انسانی جانیں بھی گئیں جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ۔ اسی طرح امریکا کی جنگ افغانستان میں لڑنے کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بدامنی کا شکار ہوا بلکہ اس جنگ میں پاکستان نے ستر ہزار سے زاید جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا جو امریکا کے نزدیک کسی شمار میں نہیں ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان بھی اب ان سب چیزوں کا حساب کتاب کرلے ۔