ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کراچی کو بچا لیا جائے

510

عدالت عظمیٰ کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو درپیش مسائل کے سدباب کے لیے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دیے جانے کی بازگشت میں جمعرات کو گلبہار سابقہ گولیمار میں ایک ہی قطار میں تعمیر کی گئیں تین عمارتیں منہدم ہوگئیں۔ ان عمارتوں کے گرنے سے 27 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہیں۔ ہمارے ریسکیو اداروں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ تین دن گزر جانے کے باوجود ملبے تک کو نہیں ہٹا سکے۔
اس سانحہ کے بعد بھی کوئی ادارہ اپنی ذمے داری لینے کو تیار نہیں، کوئی یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ اس میں کتنا قصور اس کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی ایسی بلکہ ہر طرح کی تعمیرات کی ذمے دار ہے اور ہر اس ادارے کا قصور ہے جو ایسی خلاف ضابطہ تعمیرات پر آنکھیں بند کرلیا کرتی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی ہر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کی ذمے دار ہے۔ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے معاشرے میں ہونے والی لاقانونیت کو دیکھنے کے باوجود ترجیحی بنیاد پر اسے روکنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے گریز کرکے وہاں سے ’’مٹھائی یا چائے پانی‘‘ کی مد میں کچھ نہ کچھ پکڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان تمام اداروں کو کنٹرول کرنے یا ان سے بازپرس کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی اصل ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کراچی ہی کیا پورے صوبے کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں گزشتہ بارہ سال سے اقتدار میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے آبائی شہر لاڑکانہ اور نواب شاہ کی حالت بدلنے کا خیال نہیں تو وہ کراچی کے معاملات پر کیوں توجہ دے گی۔ ہمارے یہاں جمہوریت ہے اور وہ جمہوری پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں جو اپنے اوپر جمہوری اصولوں کو لاگو نہیں کرتیں۔ ان جماعتوں کے لوگ صرف ان علاقوں پر بھی بحالت سیاسی مجبوری توجہ دے کر مسائل کا سدباب کیا کرتے ہیں جہاں سے ان کو ووٹ ملتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کراچی سے ووٹ نہیں ملتے اب اس پارٹی کو یہاں سے ایم این اے اور ایم پی اے کی مشکل سے دو نشستیں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی کے کسی مسئلے کے حل کے لیے دلچسپی نہیں لیتی۔ البتہ کراچی سے زیادہ زیادہ وسائل حاصل کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے تیسرے مسلسل دور میں بھی کراچی کے وسائل پر کنٹرول کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نیب زدہ سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ صوبائی وزیر بلدیات کو ماہانہ دس کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ خیال رہے کہ وہ بھی وزیر بلدیات رہ چکے تھے تاہم انہوں نے یہ بات نہیں بتائی تھی کہ ان کی اپنی کتنی ماہانہ آمدنی تھی۔ صوبے اور کراچی کے بے تحاشا مسائل کی اصل ذمے دار پیپلز پارٹی اور اس کی سابق اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ متحدہ ان دنوں بھی بلدیہ کراچی سمیت شہر کے چار اضلاع کی منتخب جماعت ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا سندھ میں راج ہے۔
کراچی میں عمارتوں کی بے ہنگم، لے آؤٹ پلان اور نقشوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات کرانے کی قصور وار سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ساتھ وہ تمام سیاسی اور سرکاری عناصر بھی ہیں جو ان تعمیرات کے کسی نہ کسی طور پر حصے دار تھے۔ آج عدالت عظمیٰ اس طرح کی تعمیرات کو مہندم کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ مگر ان تعمیرات میں ملوث اور ان کے پشت پناہ بااثر لوگ ایسی تعمیرات کو نہ گرانے کے لیے بھی مزاحمت کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیرقانونی تعمیرات کرنے، کرانے اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف قانون کے تحت بے رحمانہ کارروائی کی جائے تاکہ غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ ختم ہوسکے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی سمیت کراچی کے تمام اداروں کو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979 کی شکل میں بحال کیا جائے۔ واٹر بورڈ، ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو ان کی متعلقہ ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے حوالے کیا جائے، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو ختم کرکے اس کے امور متعلقہ بلدیاتی اداروں کو واپس دیے جائیں۔ کراچی کی ضرورت کے تحت بنائی گئیں ملیر اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کو مزید بااختیار بنایا جائے اور ان سب کو بلدیہ عظمٰی یا کراچی میگا پولیٹن کارپوریشن کے ماتحت کیا جائے۔ پانی اور سیوریج کا نظام مجوزہ واٹر ایکٹ کے تحت چلانے اور اس ایکٹ کے تحت سندھ واٹر سروسز ریگولیٹری اتھارٹی اور سندھ واٹر ریسورسز کمیشن بنانے کی کوششیں ختم کی جائیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کراچی انتظامی لحاظ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر تباہ و برباد ہوجائے گا۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت ایک نئے قانون کے ذریعے پورے کراچی کا نظام وفاق کے کنٹرول میں کردے تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے سب ہی مسائل ختم ہوسکے۔