نزہت منعم
28 فروری 1909 میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے نیویارک میں پہلے یوم خواتین کا انعقاد کیا اس کے ابتدائی مطالبات میں کام کے طویل اوقات کو کم کروانا، معاوضہ میں اضافہ، اور ووٹ کا حق شامل تھے بتدریج اس کا دائرہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک میں پھلتا گیا۔ 1913 میں سابق سوویت یونین نے پہلی دفعہ 8 مارچ کو عورتوں کے قومی دن کے طور پر منایا اور چھٹی دی جب عورتوں کے ووٹ کے حق کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ 1965 میں یہ تحریک حقوق نسواں تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور یوں مساوات مرد وزن کا نعرہ عام ہوا یا کیا گیا۔ یعنی عورتوں کو مرد کے برابر حقوق دیے جائیں اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے اس دن کو منانے کا آغاز 1977 میں ہوا۔ ابتدا میں مغربی معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک نے اس تحریک کو تقویت فراہم کی اور وہ ایک انتہا سے نکل کر دوسری انتہا پر پہنچ گئیں۔ اب اس تحریک نے مشرقی ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے ہیں۔ مختلف این جی اوز نے عورتوں کی فلاح و بہبود کے نام پر اور میڈیا پر عورت کی مظلومانہ تصویر پیش کر کے اس میں اپنے مطلب کے رنگ بھرنا شروع کردیے۔ یہ سچ ہے کہ مشرق میں عورت رسوم، روایات کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے، کہیں مذہب کے نام پر پابند ہے اس کے باوجود بھی اس تحریک نے برصغیر میں بھرپور کامیابی حاصل نہ کی تھی۔ اس کی وجہ اس خطہ زمین پر بسنے والوں کے مخصوص ذہنی رویے کے ساتھ ساتھ وہ آگاہی ہے جو یہاں کی عورت میں کسی درجہ میں پائی جاتی ہیکہ مساوات مردو زن نے مغربی عورت کو چادر اور چاردیواری کے تحفظ سے محروم کردیا ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے بیجنگ پلس فائیو کانفرنس اور بیجنگ پلس ٹین کے بعد حقوق نسواں صرف ایک نعرہ یا آگاہی پروگرام نہیں رہا بلکہ بزور اور جبراً نفاذ کی طرف گامزن ہے۔ صحت، تعلیم، معاشرتی حقوق، معاشی استحکام، فیصلوں کا اختیار جیسے خوب صورت الفاظ سے مرقع مساوات مرد وزن کی اس تحریک کو دو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ’’جنسی آزادی‘‘۔ جنسی آزادی بلا تخصیص مرد و عورت۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اس کے خلاف نہ صرف بے چینی بلکہ مخالفت بھی موجود ہے۔ اس دو لفظی ایجنڈے کو اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے تمام ممالک میں نافذ کرنے کا حکم نہیں بلکہ دھمکی ملی ہے۔ پاکستان کے سر پر تو یوں بھی ایف اے ٹی ایف کی تلوار ہے اور ہمارے لیے تو معاشی ناکہ بندی کی دھمکی ہی کافی ہے اس لیے اپنے معاشرے اور نسلوں کو اس انسان دشمن ایجنڈے سے بچانے کے لیے باشعور افراد تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور نئی نسل کو اس کے اثرات بد اور طریقہ وارادات سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی تاکہ معصوم ذہن ان خوبصورت نعروں کے دھوکے میں آکر اپنا مستقبل، ایمان اور آخرت نہ خراب کر بیٹھیں۔ یہاں میڈیا کے کردار کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمارا میڈیا ہمارا نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کا عکاس بھی نہیں ہے۔ آج کل نشر ہونے والے ڈراموں پر ایک نظر ہی ڈال لیں تو ہماری بات کا ثبوت مل جائے گا۔ مثلاً ایک عورت نوکری کرتی ہے گھر والوں کو وقت نہیں دے پارہی اسی اثنا میں پڑوس کی ایک لڑکی آکر گھر کے سارے کام بھی کررہی ہے اس کے میاں کی خدمت بھی کررہی ہے اور بچوں کو پڑھا بھی رہی ہے، میاں جی برملا اس کی تعریف بھی کررہے ہیں اور ان کی بیگم صاحبہ اس تعاون پر پڑوس کی لڑکی کی ممنون و مشکور ہیں۔ دیگر ڈراموں میں یہی عورت ذات مرد کے منہ سے اس کی ماں اور بہن کی تعریف نہیں سن سکتی (حسد کے مارے) وہی عورت یہاں ایک غیر عورت کو اپنا پورا گھر سپرد کرکے مطمئن بھی ہے اور بیچاری مظلوم بھی۔ جنسی آزادی کے ایجنڈے کو عام کرنے کے لیے ہی ڈراموں کے ذریعے نکاح، طلاق اور عدت جیسے اسلامی احکامات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جو نہ صرف اسلا م سے غداری ہے بلکہ خلاف آئین بھی ہے۔ حقوق نسواںکا نعرہ لے کر اٹھنے والی ان بین الاقوامی این جی اوز کے دوہرے معیار کا اندازہ یا ان کے پوشیدہ مقاصد کا اندازہ تو ان چند امور سے ہی باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ:
• اگر یہ تحریک واقعتا حقوق نسواں سے متعلق ہے تو یہ مغربی معاشروں میں مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتی؟
• پوری دنیا اور پاکستان میں بچوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر مجرموں کو سزائے موت کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی؟
• آسیہ مسیح اور تسلیمہ نسرین کے لیے تڑپنے والی خواتین ڈاکٹر عافیہ کے لیے کیوں تحریک نہیں چلاتیں؟
• عورتوں کو جنسی استیصال سے بچانا مقصود ہے تو پوری دنیا میں عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
• ان خواتین کو کشمیر، فلسطین، برما، بھارت اور شام کی مظلوم عورتیں کیوں نظر نہیں آتیں؟
• ان خواتین کا بالعموم نشانہ شوہر، باپ، بھائی اور محرم رشتہ کیوں ہیں؟
• آخر ان عورتوں کو عورتوں کا اپنے گھر والوں کے لیے گھر کے کام کرنے پر اعتراض کیوں ہے؟ جب کہ باہر غیروں کے لیے اس سے کم تر امور کی انجام دہی ان کے لیے باعث فخر ہے۔
• عورت کو نمائشی شے بنانے پر احتجاج کریں۔
• عورت کو تفریح کا سامان بنانے پر آواز اٹھائیں، میڈیا میں عورت کے استیصال کو روکیں۔
اگر ایسا نہیں ہورہا اور واقعتا اس کے برعکس ہورہا ہے تو عرض یہ ہے کہ اعتراض تو بجا ہے، تشویش کا جواز ہے، اور مسلمان ہونے کے ناتے مخالفت فرض ہے، اس لیے کہ مسلمان کا طرز معاشرت ان نعروں سے بالکل جدا ہے۔ یہاں حق وراثت ہے، حق مہر ہے، حق تعلیم ہے۔ معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اس کا کردار واضح اور متعین ہے۔ یہاں معاشرے کی بنیادی اکائی گھر کی ذمے داری اس کے پاس ہے اور اس سے اس کی پوچھ ہے۔ یہاں اس کے لیے مودًہ ہے، یہاں اس کے لیے رحمت ہے۔ یہاں اس کے کئی سائبان ہیں شوہر ہے، باپ ہے، بھائی ہے، بیٹا ہے۔ یہاں ان رشتوں کی درمیان ایثار ہے، قربانی ہے، محبت ہے رحم ہے ایک دوسرے سے انسیت ہے، مدد ہے۔ کیا ایسا کچھ مغرب کے پاس ہے؟ مغرب تو ان خوبصورت الفاظ ہی کو بھول گیا ہے۔ وہاں بس مقابلہ ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سارا زور صرف کیا جارہا ہے۔ خود وہاں کی عورت اس صورتحال سے بیزار ہوچکی ہے اور تیزی سے اسلام کی پناہ میں آرہی ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی عورت کا استیصال ہورہا ہے بلکہ بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں کہ عورت مایوس ہو کر ان این جی اوز کا حصہ بن جائے جو ان سے ان کا ایمان بھی چھین لیں۔ ان حالات میں باشعور افراد، مذہبی رہنمائوں کو آگے آنا ہوگا۔ عورتوں کو بیجا رسوم، غیر اخلاقی روایات اور خودساختہ مذہبی پابندیوں سے آزاد کروا کر اسے وہ تمام حقوق دینا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیے ہیں۔ تاکہ ہمارا معاشرہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے ثمرات سمیٹے بلکہ دنیا کے سامنے عورت کی وہ مثالی تصویر پیش کرے کہ دنیا بھر کی خواتین اسلام کے مضبوط حصار میں آنا پسند کریں۔ خود خواتین بھی یاد رکھیں کہ خاتون جنت کے ہاتھ میں چکی پیستے پیستے گٹے پڑ گئے تھے یہاں کھانا گرم کرنے کا تماشا لگایا جا رہا ہے۔ اللہ کی مرضی یہ ہے کہ خواتین مردوں کی اس بالادستی کو قبول کریں جو اللہ نے انہیں دی ہے۔ اسی میں ان کی بقا ہے۔ یاد رکھیں ہم سے اللہ کی مرضی چھین کر میری مرضی کے خوبصورت جال میں بند کیا جارہا ہے اگلا قدم یہ ہے کہ ہم سے ہماری مرضی بھی چھین لی جائے گی۔