ظفر عالم طلعت
یوں تو ہر شریف آدمی جو شادی شدہ ہونے کا دعوے دار ہے اسے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں تو ضرور بیگم کی ڈانٹ (اپنی ہی بیگم) سننی پڑتی ہے۔
ویسے بھی ہم مردوں کا معاملہ یہ ہے کہ بچپن میں والدین اور بڑوں کی ڈانٹ سنتے تھے۔۔ اسکول جانے لگے تو اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہوگئی۔۔ اور جب بڑے ہوئے اور شعور کو پہنچے اور آزادی کا سانس لینے کی کوششیں بار آور ہونے لگیں۔ تو والدین نے کھونٹے سے باندھ دیا جسے عرف عام میں بیگم کہا جاتا ہے۔۔ لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے ہم ڈانٹ ڈپٹ کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ جس دن بیگم کی ڈانٹ نہ پڑے کھانا (اپنا) ہضم نہیں ہوتا تھا کیونکہ بیگم کی ڈانٹ چورن کا کام کرتی ہے۔۔
اس روایت کی تاریخ کتنی پرانی ہے یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کی شروعات امان حوّا سے ہوئی ہوگی جبھی سیدنا آدمؑ کو جنت سے۔نکلنا پڑا۔۔۔ یوں یہ روایت نسل در نسل چلی آرہی ہے۔۔ کوئی مذہب ہو۔۔ کوئی ملک ہو۔۔ کوئی معاشرہ ہو۔ کوئی زبان ہو۔ اس سے مبرا نہیں۔۔ یہاں تک کہ جنگل میں بھی شیر سب کو ڈانٹتا ہے مگر شیرنی سے دم دبا کر ڈانٹ سنتا ہے۔۔
جس دن بیگم سے ڈانٹ نہ پڑے اس دن زندگی میں ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے۔۔ ہماری یہ آپ بیتی دراصل جگ بیتی ہے۔۔ اور کہانی ہے گھر گھر کی۔۔۔۔
بیگم جب تک ڈانٹ نہ لیں ان کا دل ہلکا نہیں ہوتا۔۔ ٹینشن۔۔ شوگر۔۔ بلڈ پریشر کے امراض میں یہ نسخہ نہایت ہی مفید ثابت ہوا ہے۔۔ بیگم کے حق میں۔۔۔ شوہر کی خیر ہے۔۔
جو شادی شدہ حضرات اب تک برسرروزگار ہیں ان کی ڈانٹ ڈپٹ ذرا مختلف ہوتی ہے۔۔ مثلاً۔۔ ارے منے کے ابا کب سے کہہ رہی ہوں کہ پیمپر لانے ہیں اور آپ ہیں کہ سنتے ہی نہیں ہیں۔۔ اب اگر منے نے آپ پر کچھ کردیا تو مجھے نہ کہیے گا۔۔۔
اس کے بر عکس ریٹائرڈ لوگوں کا معاملہ کچھ اور ہے ۔
ان کی ڈانٹ کا انداز کچھ یوں ہوتا ہیکہ۔۔ کیا ہر وقت پلنگ پے پڑے مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہو۔۔ اگر کریم یا اوبر چلا لیتے تو چار پیسے بچ جاتے اور میرا نیا سوٹ آجاتا۔۔ کب سے نئے سوٹ کو ترس رہی ہوں۔۔ حالانکہ ابھی پچھلے ہفتے ہی لوٹ سیل سے لطف اندوز ہوچکی ہیں۔۔
اس ڈانٹ ڈپٹ کو اگر آپ مسئلہ سمجھتے ہیں تو واقعی یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ میں برسوں سے زیر غور ہے اس لیے اس کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔۔۔
البتہ اگر آپ اس کو روٹین میں لیں اور مسئلہ نہ بنائیں بلکہ لطف اندوز ہوں تو آپ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔۔ مثلاً جیسے ہی بیگم کی ڈانٹ پڑے آپ ایک تجاہل عارفانہ کے ساتھ بیگم کو مسکرا کر دیکھیں اور سر پر (خیال رہے کہ اپنے سر پر) ہاتھ مارکر کہیں۔۔ اوہ یار میں تو بھول ہی گیا تھا یہ لو بس یوں گیا اور یوں آیا۔۔ منے کا پیمپر لیکر۔۔۔ اور واپسی پر پیمپر گے ساتھ ساتھ بیگم کی پسند کی کوئی اور چیز بھی لیتے آئیں جو آپ کے لیے گھر میں گھسنے یعنی پاسپورٹ کا کام دے گی۔۔۔
آخر میں احباب سے گزارش ہے کہ اس کالم کے عنوان
بیگم ڈانٹ کام کو انٹرنیٹ سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں۔۔ مگر اپنی ذمے داری پر…
بات دراصل یہ ہے کہ بیگمات ڈانٹ ڈپٹ میں بالکل حق بجانب ہیں۔۔ ہم شوہر حضرات تو ہفتہ وار۔۔ عید بقرا عید اور اس کے علاوہ بھی مختلف عنوانات سے چھٹیاں کرلیتے ہیں۔۔ مگر بیگم کی ڈانٹ کے ساتھ جو کام لگا ہے۔۔ اس کی کبھی چھٹی نہیں ہوتی۔۔۔ 24 گھنٹے۔۔ ساتوں دن اور بارہ مہینے وہ بے چاری آن ڈیوٹی ہوتی ہے۔۔ اور قائد اعظم میڈل کی حقدار ہے۔۔ کام کام اور صرف کام۔۔ ہمارے تو پھر بھی ڈیوٹی آورز ہوتے ہیں مگر اس کے کوئی ڈیوٹی آورز نہیں ہیں۔۔
اس لیے بیگم ڈانٹ کام۔۔ کو کام سے پہلے ڈانٹ کا حق دینا ہوگا۔ ویسے میرے اس کالم کو کوئی حقوق نسواں۔۔ عورت ڈے۔۔ عورت مارچ۔۔ اور عورت کی مادر پدر آزادی سے نہ جوڑے۔۔۔
اچھا تو ناظرین و سامعین اور قارئین و حاضرین اب ہم چلتے ہیں۔۔ اس سے پہلے کہ بیگم سر پر آکر کھڑی ہوجائیں اور ڈانٹ ڈپٹ کا بازار گرم ہوجائے۔۔ اور ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ قوالی بھی شروع ہوجائے۔۔
اچھا تو بھائیوں پھر ملاقات ہوگی۔۔ اگر خدا بچا لایا بیگم کی نوج سے۔۔۔
اکبر ڈرا نہ فرنگی کی فوج سے۔۔۔
لیکن ڈرگیا بیگم کی نوج سے