ابو یحیی
خدا کی بندگی اور اس کی یاد میں جینا دینی مطالبات کا خلاصہ ہے۔ مگر اس کا طریقہ دنیا چھوڑنا نہیں بلکہ اس میں رہتے ہوئے رب کو یاد رکھنا ہے۔ اسی پس منظر میں کھانے پینے سے قبل یہ سنت مقرر کی گئی ہے کہ اللہ کا نام لے کر اور سیدھے ہاتھ سے کھایا پیا جائے۔
ایک زمانے تک ہمارے ہاں دستور تھا کہ کھانے کے وقت اہتمام کے ساتھ بچوں کو بسم اللہ پڑھائی جاتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اکثر گھروں میں اب یہ رواج ختم ہو گیا ہے۔ یہ محض ایک معاشرتی رواج نہ تھا، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ بچے زندگی بھر جب کبھی کچھ کھائیں پئیں تو اللہ کا نام لینا ان کی گھٹی میں پڑ جائے۔ دین نے یہ طریقہ اس لیے مقرر کیا تھاکہ زندگی کے عظیم ترین حقائق کی یاددہانی انسانوں کو حاصل ہوتی رہے۔
پانی اور خوراک زندگی کو برقرار رکھنے والی بنیادی نعمتیں ہیں۔ انسان کی ساری سعی و جہد کا بنیادی مقصد خوراک کا حصول ہے۔ انسان جو کچھ کماتا ہے، اس کا پہلا استعمال وہ اسی خوراک کو حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ گویا کھانے کے وقت اللہ کا نام لینا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنی ساری سعی و جہد اور اس سے حاصل ہونے والی تمام نعمتوں کو خدا کے نام کر دینے کا عمل ہے۔ یہ اپنے وجود کی بقا کے لیے خدا کی فراہم کردہ نعمتوں کو اسی کی طرف منسوب کرنے کا عمل ہے۔ جبکہ سیدھے ہاتھ سے کھانا زبان حال سے یہ دعا کرنا ہے کہ روز قیامت مجھے ان کامیاب لوگوں میں کر دیا جائے جن کو اپنا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا اور وہ ہمیشہ خدا کی نعمتوں میں زندہ رہیں گے۔
کھانے کی صرف یہی اہمیت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی یاددہانی ہے جن میں انسان دن رات جیتا ہے۔ خوراک کو وجود میں لانے کے لیے پوری کائنات کی طاقتیں استعمال ہوتی ہیں، تب ہی کھانے کی وہ چیز وجود میں آتی ہے جسے ہم بہت معمولی چیز سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ سورج اپنی حرارت نہ دے، سمندر اپنا پانی نہ دے، آسمان اپنے بادل نہ دے، دریا اپنی روانی نہ دے اورزمین اپنی زرخیزی نہ دے تو صفحۂ ہستی سے ہر سبزہ و نباتات اور حیوان کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے بعد یہ چھ فٹ کا انسان تڑپ تڑپ کر بھوک اور پیاس سے مرجائے گا اور کوئی نہیں ہوگا جو اس کی بھوک پیاس مٹا سکے۔ اس کی زندگی بچا سکے۔
خوراک کو عظیم ترین نعمت بنانے والی چیز غذائی تنوع (variety) بھی ہے۔ انسان کبھی یکسانیت پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ انسان کے دسترخوان پر اتنے ذائقے، رنگ اور خوشبوئیں جمع کر دی گئی ہیں جس کی مثال کسی اور مخلوق کے لیے نہیں ملتی۔ سبزی، اناج، مرچ مصالحے، گوشت اور ڈیری وغیرہ میں ان گنت اقسام کی چیزیں انسان کو میٹھا، کھٹا، ترش، نمکین اور دیگر کئی طرح کے ذائقے کی چیزیں فراہم کرتے ہیں۔
پھر یہ خوراک جسم انسانی میں موجود ایک انتہائی پیچیدہ نظام ہضم کے ذریعے سے توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد انسان روزمرہ کے کام کاج کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس کے جسم میں نشو ونما ہوتی ہے اور اس کی قوت اور زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
خوراک جیسی بنیادی نعمت کے لیے کائناتی قوتوں کو حرکت میں لانے والا، خوراک میں ورائٹی اور ذائقہ پیدا کرنے والا، اسے ہاضمے کے خود کار عمل سے گزار کر انسان کو طاقت و توانائی اور زندگی فراہم کرنے والا رب بلاشبہ اس قابل ہے کہ جب کبھی کچھ کھایا پیا جائے، اسی کا نام لیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں کو یہ چھوٹا عمل بھی بہت گراں گزرنے لگاہے۔ اہم ترین نعمتیں فراہم کرنے والا رب اتنا غیر اہم ہو گیا ہے کہ اس کے نام کے دو لفظ بھی زبان سے نکالنے یاد نہیں رہتے۔ اس سے زیادہ ہماری بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔