افکار سید ابوالاعلی مودودی ؒ

414

تعمیری اور تخلیقی کام کے لیے درکار ماحول
جن کے خون کو عریاں تصویریں، فحش لٹریچر، ولولہ انگیز گانے، برانگیخنہ کرنے والے ناچ، عشق و محبت کے فلم، دل چھیننے والے زندہ مناظر اور صنف مقابل سے ہر وقت کی مڈبھیڑ کے مواقع پیہم ایک جوش کی حالت میں رکھتے ہوں، وہ کہاں سے وہ امن، وہ سکون اور وہ اطمینان لا سکتے ہیں جو تعمیری اور تخلیقی کاموں کے لیے ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ہیجانات کے درمیان ان کو اور خصوصا ان کی جوان نسلوں کو وہ ٹھنڈی اور پرسکون فضا میسر ہی کہاں آسکتی ہے جو ان کی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کی نشونما کے لیے ناگزیر ہے۔ ( پردہ )
٭…٭…٭
اجتماعی زندگی کے لیے تنقید کیوں ضروری ہے؟
تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہر خرابی کی بروقت نشاندہی کرتی اور اْس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے اخلاقی حیثیت سے تنقید کی وہی اہمیت ہے جو مادی حیثیت سے صفائی کی اہمیت ہے۔
جس طرح نجاست و طہارت کی حِسّ مِٹ جانے اور صفائی کی کوشش بند ہو جانے سے ایک بستی کا سارا ماحول گندا ہو جاتا ہے اور اس کی فضا ہر طرح کے امراض کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح تنقیدی نگاہ سے خرابیوں کو دیکھنے والی آنکھیں، بیان کرنے والی زبانیں اور سننے والے کان اگر بند ہو جائیں تو جس قوم، سوسائٹی یا جماعت میں یہ حالت پیدا ہوگی وہ خرابیوں کی آماجگاہ بن کر رہے گی اور پھر اس کی اصلاح کسی طرح نہ ہو سکے گی‘‘۔ (تحریک اور کارکن)
٭…٭…٭
شاہ کلید
جاہلیت کے زمانے میں مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم وجدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں۔ مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا۔ علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے… میری اصلی محسن بس یہی کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ حیوان سے انسان بنادیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی اور ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو Key Master (شاہ کلید) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو میرے لیے یہ قرآن ’’شاہ کلید‘‘ ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، کھل جاتا ہے۔
جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔ (میری محسن کتاب)
٭…٭…٭
انقلاب
ہم جو انقلاب چاہتے ہیں اْس کے لیے ہمیں کوئی نئی صورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انقلاب اِس سے پہلے بھی برپا ہو چکا ہے۔ جس پاک انسان (محمدؐ) نے پہلی مرتبہ یہ انقلاب برپا کیا تھا، وہی اِس کی فطرت کو خوب جانتا تھا۔ اور اْسی کے اختیار کیے ہوئے طریقے کی پیروی کر کے آج بھی یہ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ (تنقیحات)