نعیم صادق
پاکستان میں حکومتیں روایتی طور پر ناراضی کی کیفیت سے دوچار ہوتی ہیں، جب انہیں بحالت مجبوری وہ معلومات عوام کے سامنے لانی پڑتی ہیں، جو ویسے بھی عوام کو دستیاب ہونا چاہیے۔ آئین کے آرٹیکل 19 (اے) یا معلومات تک رسائی کا قانونی حق (آر ٹی آئی) کے قانون جیسے متاثر کن اور موجود آرٹیکل بھی عوامی اداروں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے بہت کم مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لاپتا، غیر موثر یا کمزور، انفارمیشن کمیشن اس بدبختی کا مرکز ہیں۔
تاہم، اس اداس کرنے والی صورتحال کے باوجود ’’معلومات کو خفیہ رکھنے والے‘‘ منظر نامے میں بھی، کچھ قابل ذکر پیش رفت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ دوسرے متعدد سوئے ہوئے اور غیر موثر کمیشنوں کے برعکس، اسلام آباد میں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) پیشہ ورانہ مہارت کی نئی روایات تشکیل دے رہا ہے۔ عملے، وسائل اور آفس کی جگہ میں کمی کے باوجود، اس نے یہ ظاہر کیا ہے کہ مٹھی بھر پرعزم افراد کس طرح ایسے فیصلے کرسکتے ہیں، جو لاکھوں افراد کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ متعدد تذبذب کا شکار سرکاری ادارے پہلی بار، ان معلومات کو ظاہر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جو برسوں سے خفیہ دستاویزات میں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے صفائی کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کی غیر قانونی کم اجرت کو بڑھانے کے لیے کس طرح آر ٹی آئی کا استعمال ہوا اس کی حالیہ کہانی ایک متاثر کن کیس اسٹڈی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام شہری اور ذمے دار انفارمیشن کمیشن انتہائی ناپسندیدہ بیوروکریٹک نظام میں بھی تبدیلی لانے کے لیے کس طرح اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے ایک گروپ (Citizens for Equal Rights) نے جو شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد کر رہا ہے، سی اے اے (سول ایوی ایشن) کے ساتھ کم سے کم مقررہ اجرت سے بھی کم اجرت حاصل کرنے والے صفائی کے عملے کا معاملہ اٹھایا۔ معلومات کے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے، شہریوں نے معاہدوں کی کاپیاں طلب کیں۔ جن میں سی اے اے کے صفائی کے عملے کی اجرت کی وضاحت کی گئی ہے۔ جب، متعدد خطوط، شکایات اور ای میلز کے باوجود، سی اے اے ایسی معلومات کی فراہمی میں ناکام رہا، تو معاملہ پی آئی سی کے پاس بھیج دیا گیا۔ پی آئی سی نے فوری طور پر پیشہ ورانہ طور پر دونوں فریقوں کو سنا اور فیصلہ کیا کہ سی اے اے کے پاس درخواست کردہ معلومات سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایک اہم فیصلے میں، سی اے اے کو ہدایت کی گئی کہ وہ گروپ کو وہ معاہدے کی دستاویزات فراہم کرے جس کے تحت معاہدہ کرنے والوں کو اجرت دی جاتی تھی۔ سی اے اے نے فوری طور پر اس کی تعمیل کی اور درخواست دہندگان کو اس معاہدے کی ایک کاپی فراہم کی۔ معاہدے کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سی اے اے نے ٹھیکیدار کو 20000 روپے فی شخص کے حساب سے ادائیگی کی ہے۔ لیکن ٹھیکیدار نے صفائی کرنے والے افراد کو ماہانہ صرف 15000 روپے کی رقم دی ہے۔ یہ رقم وفاقی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم سے کم قانونی اجرت سے صریح انحراف تھی۔ اس معلومات کی بنیاد پر، (Citizens for Equal Rights) شہریوں کے لیے مساوی حقوق گروپ نے سی اے اے کو خط لکھ کر اپنے تمام معاہدہ دہندگان کے لیے کم سے کم اجرت کی فوری تعمیل کا مطالبہ کیا اورسی اے اے نے فوری طور پر اس پر عمل کیا۔