ایک ملک دو صدر

295

افغانستان میں امن کے آثار ہویدا ہوتے ہی ہمہ وقت کام کرنے والا خرابی کا خودکار نظام بھی آخر کار حرکت میں آہی گیا۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات میں نصف درجن سے زیادہ امیدوار تھے مگر ماضی کی طرح اس بار بھی اصل مقابلہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان تھا۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ افغانستان کی دو مختلف قومیتوں پشتون اور تاجک ہی سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ دونوں کا پس منظر بھی قطعی مختلف ہے۔ اشرف غنی بیرونی دنیا میں زندگی گزارنے والے ٹیکنو کریٹ ہیں تو عبداللہ عبداللہ سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کا ایک کردار۔ وہ احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں ان کا انداز خاصا پراعتماد اور جارحانہ تھا اور ان کا میڈیا اہتمام کے ساتھ ان کی جہادی زندگی کی یاد گار تصویریں جاری کرتا رہا۔ جس میں وہ کہیں احمد شاہ مسعود کے پہلو میں بندوقوں کے سائے میں کسی جنگی اسکیم پر بحث کرتے نظر آرہے ہیں تو کہیں فوجی وردی میں ملبوس ایک کمانڈو کے کردار میں دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے بہت سرعت کے ساتھ صدارتی انتخاب میں ایک طرح کا شمالی اتحاد بحال کر دیا۔ تاجک عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ازبک لیڈر عبدالرشید دوستم اور اُستاد محقق اور ہزارہ لیڈر کھڑے نظر آتے تھے۔ انتخابی معرکے میں اشرف غنی کامیاب ٹھیرے تو عبداللہ عبداللہ کے لیے یہ بات قطعی قابل قبول نہیں تھی۔ یہاں تک ان کے اتحاد نے اشرف غنی کے مقابل ایک نیا ڈھانچہ قائم کرنے کا راستہ اپنا لیا۔ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور خود کو قانونی صدر قرار دیا۔ اس کشمکش نے عملی شکل اس وقت اختیار کی جب کابل کی پہلو بہ پہلو ایستادہ دو عمارتوں میں بیک وقت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے صدر کے عہدوں کے حلف لے لیے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان مفاہمت کرانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ مفاہمت کی کوششوں میں ناکامی کے بعد امریکی عہدیداروں نے اپنا وزن اشرف غنی کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے ان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔
عبداللہ عبداللہ کی تقریب میں کسی غیر ملکی شخصیت یا سفارت کار نے شرکت تو نہیں کی مگر ایسا بھی نہیں کہ ان کا کوئی بیرونی دوست بہی خواہ اور ہمدرد نہ ہو۔ ایک طرف افغانستان کے حکومتی سسٹم میں دو متوازی دھارے چل پڑے تو دسری طرف امریکا اور طالبان میں براہ راست بات چیت تیزی سے کامیابی کی راہوں پر گامزن ہے اور اس کا ثبوت یہ بھی ہے امریکیوں نے مزید انتظار کی زحمت کیے بغیر افغانستان سے رخت سفر باندھنا شروع کردیا۔ یوں افغانستان میں افتراق و انتشار کی ایک مثلث وجود میں آگئی ہے جس کے تین زاویے طالبان، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ہیں۔ اس نے انٹرا افغان ڈائیلاگ کو کچھ اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دنیا افغانستان کا قانونی صدر اشرف غنی کو تسلیم کرلیتی ہے تو بھی افغانستان کی جغرافیائی اور عوامی حقیقتوں میں عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اپنی اپنی اکائیوں کی نمائندہ طاقتیں ہیں اور انہیں مطمئن کیے بغیر افغانستان کے حالات کی اُلجھی ہوئی ڈور سلجھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح ہزارہ کی اپنی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغانستان کا جو مستقبل کا منظر تشکیل پارہا تھا اس میں گل بدین حکمت یار پشتون آبادی کے بڑے حصے پر اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے مگر ان کی کامیابیوں کو بریک لگانے کے لیے تاجک احمد شاہ مسعود آگے آئے تو واقعی ان کی کامیابیوں کو بریک لگ گئی۔ کچھ یہی معاملہ طالبان کے ساتھ ہوا جب اور جہاں شمالی اتحاد نے چاہا طالبان کے قدم رک گئے اور طالبان کے دور میں شمالی اتحاد کو حکومت کے انداز میں اپنے معاملات چلانے کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا ہے۔ اب بھی عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم نے اپنا متوازی نظام قائم کرکے کابل حکومت کے پیروں کے نیچے سے قالین کھینچ لیا ہے۔ جس سے کابل حکومت کی طالبان کے ساتھ سودے بازی کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہورہی ہے۔ ایک طرف طالبان متحدہ قوت ہیں تو دوسری طرف کابل حکومت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
عبداللہ عبداللہ کی صدارت کب تک اور کہاں تک چلتی ہے اس بات سے قطع نظر ان کا اتحاد کئی عالمی اور علاقائی قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کی پوری کوشش ہوگی کہ اشرف غنی کا ساتھ نبھایا جائے اور بھارت ان کی حکومت کے لیے سائبان بننے کی ہر ممکن کو شش کرے گا۔ پاکستان کے ساتھ اشرف غنی کا معاملہ اچھا ہوتا تو شاید ان کی پوزیشن بدرجہا بہتر ہوتی مگر وہ بھارت کے ساتھ تعلق کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک ہاتھ سے افغانستان میں سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے امداد دیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے پاکستان مخالف ایجنڈا تھماتا ہے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے گھیرائو کے امکان کی عینک سے دیکھتا ہے اور شاید دوسرا تناظر ایک اور علاقائی ملک میں چین کو پچھاڑنے کی سوچ ہے۔ دوصدور کا معاملہ یونہی آگے چلتا ہے تو پھر شمالی اتحاد ترکی، ایران، روس کی حمایت حاصل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے سفیر مقیم کابل نے عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی اور عبداللہ عبدللہ نے اپنے میڈیا کے ذریعے اس ملاقات کی خوب تشہیر بھی کی تھی۔ طالبان کو ماضی کے تجربے سے یہ حقیقت معلوم ہو چکی ہے کہ وہ تنہا افغانستان کے حکمران نہیں بن سکتے۔ خود ان کی صفوں میں دوسری قومیتوں اور شمالی علاقوں کی نمائندگی بھی نہیں۔ آخر کار انہیں آگے چل کر پاور شیئرنگ کے لیے شمالی قوتوں سے معاملات طے کرنا پڑیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے شمالی قوتوں نے خود کو اشرف غنی کے اقتدار سے الگ کر کے طالبان کے ساتھ ایک الگ قوت کے طور پر معاملات طے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ نسبت عبداللہ عبداللہ کے ساتھ معاملہ کرنا آسان ہے۔ اس مرحلے پر یہ بات شاید بہت سوں کی سمجھ میں نہ آئے مگر تھوڑی دور چل کر یہ بات پورے سیاق وسباق کے ساتھ حقیقت بن کر سامنے آئے گی۔
طالبان اور اشرف غنی دونوں پشتون سہی مگر طالبان کے لیے اشرف غنی سے معاملات طے کرنے کی گویاکہ شمال کی زمینی حقیقتوں کے ساتھ طالبان کا جو سامنا آگے چل کر ہونا تھا بہت پہلے ہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس وقت افغانستان ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو‘‘ کی عملی تصویر بنانظر آتا ہے۔ آج طالبان سوویت انخلا کے بعد کے گل بدین حکمت یار ہیں تو اشرف غنی ڈاکٹر نجیب کی جگہ پر کھڑے ہیں جبکہ عبداللہ عبدللہ اس وقت کے استاد ربانی اور احمد شاہ مسعود کے مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کرداروں کے پیچھے بھی تمام کردار تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ وہی نظر آتے ہیں۔ ماضی کے حالات کی پرچھائی کی صورت یہ منظر افغانستان کی طرح پاکستان کے لیے بھی ماضی ہی کی ہی طرح کسی طور اچھا نہیں۔