8 مارچ2020ء کو خواتین کے عالمی دن پر کراچی،اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ،حیا مارچ،تکریم نسواں سمیت مختلف عنوانات سے خواتین نے مظاہرے کیے۔گزشتہ مارچ میں مخرب الاخلاق، ملکی آئین،مذہب،خاندانی نظام کے خلاف نعروں پر مبنی پوسٹرز،پلے کارڈ،بینرزبڑے پیمانے پر لہرائے گئے تھے جس پر پوری قوم نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ معروف بدتمیز رائٹر اور اپنی طرح ملک کو مادر پدر آزاد دیکھنے کی آرزو مند ایک عورت کے درمیان ایک ٹی وی چینل پر تو تو میں میں کیا ہوئی کہ عورت مارچ کو لیکر ایک بار پھر پوری قوم صف آراء ہوگئی اور بات پرنٹ،الیکٹرونک اور سوشل میڈیا سے بڑھ کر عدالتوں تک جا پہنچی۔لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں مارچ پر پابندی کے لیے عرضیاں دائر کردی گئیں۔ عدلیہ نے آزادی رائے سب کا حق ہے کو تسلیم کرتے ہوئے مشروط مارچ کی اجازت دیدی اور معاشرتی اقدار،معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے نعروں پر مبنی پوسٹرز لہرانے پر پابندی لگادی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’توقع ہے کہ عورت مارچ کے شرکاء شائستگی برقرار رکھتے ہوئے آئینی حق استعمال کریں گے اور ان کے ارادوں پر شک کرنے والوں کو اپنے عمل سے غلط ثابت کریں گے‘۔عورت مارچ کی منتظمہ ڈاکٹرحائفہ ناصر نے پلے کارڈ پر قابل اعتراض نعروں سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ‘عورت مارچ کوئی تنظیم یا گروپ نہیں جو اس بات کا تعین کرے کہ کون اس کا حصہ بنے گا اور کون نہیں۔اگر خواتین کو کسی بات کے اظہار کے لیے روکیں تو تکنیکی طور پر ہم بھی وہ ہی کام کررہے ہوں گے جو لوگ ہمارے خلاف کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اپنے سوشل میڈیا فورم کے ذریعے کچھ گائیڈ لائنز دی ہیں جن میں خواتین کو کہا گیا ہے کہ وہ پلے کارڈز پر غیر اخلاقی نعروں سے گریز کریں’۔ڈاکٹر حائفہ کے بیان کے پہلے حصے سے واضح ہے کہ مارچ میں آنے والی خواتین جو مرضی لکھ کر آجائیں وہ آزاد ہیں۔دوسرے حصے میں معاشرتی دبائو اور مارچ پر پابندی لگنے کے ڈر سے یہ کہہ دیا کہ خواتین کو غیر اخلاقی نعروں سے گریز کا کہہ دیا ہے۔آئیں ان پلے کارڈز،پوسٹرز،بینرز کو دیکھتے ہیںجنھیں گزشتہ دنوں ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے مارچ میں نمایاں کیا گیا۔
میرا جسم میری مرضی،طلاق یافتہ بیٹی مردہ بیٹی سے بہت بہتر ہے،ہاتھ میںجھاڑو کیوں قلم کیوں نہیں،عورت کا اپنا گھر کیوں نہیں،میرا کتا بھی جانتا ہے نہیں کا مطلب نہیں(even my dog knows no mean no)اس نعرے میں کتے اورلعنت کی تصویریں بھی بنائی گئیں،ایک پوسٹر پر طوائف کو دکھاتے ہوئے یہ نعرہ درج تھا۔فحاش ہوں،بے حیا ہوں،اپنا بنیادی حق جو مانگ رہی ہوں۔باغی عورت دنیا بدلے گی(rebellious women will change the world)میں تمھاری عزت نہیں ہوں،پدر شاہی کو مات دو،دادا ابو no ، رشتے نہیں حقوق چاہییں۔مرد عورت پر ہے بھاری،کیا نہیں یہ نا انصافی۔مجھے حیا سکھانے سے پہلے اپنی سرچ ہسٹری دیکھو!۔ملّائو اب ہماری تمھاری کھلی جنگ ہے۔بچیوں کو اسکول بھیجو سسرال نہیں۔ہر وہ شخص ذلیل ہے جس کا ہیرو خلیل ہے۔جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں۔مردانہ کمزوری،end of story۔
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
(غالب)
کیا یہ نعرے ہماری تہذیب،مذہب اور اقدار سے مطابقت رکھتے ہیں؟کیا یہ نعرے مرد سے نفرت،بیزاری اور انہیں اشتعال دلانے والے نہیں ہیں؟کیا ان نعروں کے پیچھے مادر پدر آزاد مغربی سماج کی خواہش جھلک نہیں رہی؟۔کیا ان نعروں کے بعد بھی کسی کو شک ہے کہ ان چند بے حیا فنڈڈخواتین کے پس پردہ مغربی ایجنڈا کارفرما ہے جو یہاں مذہب اور خاندانی نظام کا خاتمہ چاہتا ہے۔
کیا ان نعروں کے بعد معزز جج صاحبان کوئی نوٹس لیں گے جیسا کہ انہوں نے کہا تھا؟۔کچھ نعرے اتنے واہیات تھے کہ مرد ہوکر بھی مجھے لکھتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے۔لاہور کے عورت مارچ میں ایک لڑکی ڈھولکی بجاتے ہوئے لائوڈ اسپیکر پر چیخ چیخ کرکہہ رہی تھی کہ’ والد سے لیں گے آزادی۔والد سے لیں گے آزادی۔والد سے لیں گے آزادی‘۔ اس ویڈیو کی سوشل میڈیا پر ہر پاکستانی مرد اور عورت نے مذمت کی اورساتھ ہی لاہور اور اسلام آباد کے ججوں کو بھی مخاطب کیا۔جماعت اسلامی کی خاتون رہنما ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے یہ کلپ دیکھ کرٹوئٹر پر لکھا کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ان بیٹیوں کو۔آغاجان (والد)کو جدا ہوئے آٹھواں سال ہونے جا رہا ہے۔ایک پل کو نہیں بھولتے۔یہ کیسی بد نصیب بیٹیاں ہیں جو محبت اور حفاظت کے حصار سے آزادی حاصل کر کے وحشت میں بھٹکناچاہتی ہیں۔
لاہور کے مارچ میں لال رنگ کا ایک طویل بینر بھی آویزاں کیا گیا جس پر کچھ ایسی عبارتیں درج تھیں کہ جنھیں لکھا نہیں جاسکتا۔ ان عبارتوں میں باس،ڈرائیور،انکل،بھائی،حتیٰ کے نانا کوبھی نہیں بخشا گیا اور ان کے بارے میں شرمناک فقرے لکھے گئے۔اس مہم کو شروع کرنے والی عورت مارچ کی رضاکار فاطمہ رزاق کہتی ہیں کہ گزشتہ کئی دن سے متعدد خواتین نے اپنے ہاتھ سے اس کپڑے پر خود کے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی کے تکلیف دہ تجربوں کی کہانیاں مختصراً بیان کی ہیں۔اس مہم کا مقصد بھی وہی عورت کو مرد سے بدظن کر کے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ وابتر
(اقبالؒ)
یہ بات خوش آئند ہے کہ میڈیا سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ان بے حیا مستورات کی پرزور مذمت کی ہے، جن کو یہ نہیں معلوم کہ مستور کا مطلب کیا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ان مٹھی بھر مغرب زدہ خواتین کو لگام دے، ان کو کون کون سے ممالک فنڈنگ کررہے ہیں انہیں منظر عام پر لائے۔ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔
ان مظاہروں میں چند اچھے نعرے اور مطالبات بھی سامنے آئے جن کی مجھ سمیت ہر پاکستانی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ وہ صاحبِ اقتدار طبقے سے بھی امید رکھتا ہے کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
مہنگائی اور معاشی جبر نامنظور۔ جائداد میں حصہ ہمارا حق ہے۔ تعلیم ہمارا حق ہے۔ بھٹوں سے جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے۔ پشتون، بلوچ مائوں کے لاپتا بچوں کو بازیاب کرو۔ بچوں پر جنسی تشدد بند کرو۔ بیوی اور نوکرانی میں فرق سمجھو۔ ہر لڑکی کے ہاتھ میں قلم و کتاب کے لیے ہم لڑیں گے۔ بیٹی رحمت ہے بوجھ نہیں۔ گھریلو تشدد ظلم ہے۔ اسلام نے تو حقوق دے دیے مسلمان کب دے گا۔ مار نہیں پیار ورنہ
ایف آئی آر۔ جمہوریت چاہیے ڈھونگ نہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کسی عورت مارچ میں ڈاکٹر عافیہ اور مقبوضہ کشمیر کی محصور خواتین کے حق میں کوئی پلے کارڈ نظر نہیں آیا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ واریت، لسانیت کی آگ بھڑکانے میں ناکامی کے بعد اس بار پاکستان دشمن قوتوں نے عورت کارڈ استعمال کیا ہے۔ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ اس ملک میں عورت کی کتنی عزت کی جاتی ہے اس لیے اگر عورتوں کو میدان میں اتارا جائے تو کامیابی ممکن ہے۔ اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے ورنہ ماروی سرمد جیسی عورت جو ملکی آئین، اسلام اور فوج کی مخالف ہے اور چینل پر بیٹھ کر سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی تضحیک بھی کرتی ہے۔ ان سب کے باوجود عورت ہونے کی وجہ سے اس پر نہ تو کبھی پتھر اُچھالا گیا نہ ہی کسی نے غداری کے تمغے سے نوازا۔ عورت کارڈ کھیلنے والے ان ملک دشمن عناصر کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی زرِ خرید ان مٹھی بھر عورتوں کو اس ملک کی باحیا، غیرت مند، تہذیب و ثقافت کی زینت سے آراستہ خواتین ہی ناکام و نامراد کردیں گی۔ علامہ اقبال کی طرح آزادی نسواں کا فیصلہ ہم عورتوں ہی پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود سوچیں کہ اُن کے حق میں کیا بہتر ہے۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردان ِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند!