بینظیر بھٹو اور زرداری کی شادی میں ضیاءالحق کا ہاتھ تھا

919

ریڈیو، ٹی وی، اخبارات کا رپورٹنگ اور دیگر شعبوں میں 50 سالہ خدمات کا تجربہ رکھنے والے اور ‘کتاب صحافت سے صحافت تک’ کے مصنف ممتاز صحافی شبیر احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کرانے میں صدر ضیاءالحق کا ہاتھ تھا۔

مذکورہ بالا کتاب کو فضلی سنز نے شائع کیا ہے۔ کتاب میں بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، مہاجر قومی مومنٹ کے رہنما عظیم احمد طارق اور پولیس افسر ذیشان کاذمی کے قتل کے واقعات اور جسارت سمیت مختلف اخبارات کا بھی ذکر ہے۔

شبیر احمد صدیقی نے ‘بینظیر کی شادی کس نے کرائی’ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ایک دن اتفاق یہ ہوا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں کے نمائندے کراچی ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ الیکٹرانک والے جنرل ضیاءالحق اور پرنٹ والے بینظیر بھٹو کیلئے تھے۔

جنرل کراچی آرہے تھے جبکہ بینظیر کراچی سے لندن جا رہی تھیں۔ اس دوران اسپیشل کے ایک افسر نے ہمارے یار و عزیز نوائے وقت کے چیف رپورٹر یوسف خان کے کان میں کچھ ایسی چونکا دینے والی بات کی کہ یوسف خان اپنی جگہ دم بخود کھڑے رہ گئے۔

ہم نے یوسف خان سے استفسار کیا تو بولے کہ یہ آدمی ہم کو عجیب بات بتا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو منگنی کرنے لندن جارہی ہیں، بینمبینو سینما والے حاکم علی زرداری کے ساتھ۔ ہم(یوسف خان) نے اسپیشل کے افسر سے پوچھا کہ آپ یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہ سکتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم یعنی حکومت کروارہی ہے۔ ایک بڑی ڈیل کے تحت یہ رشتہ ہورہا ہے لیکن اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔

شبیر صدیقی لکھتے ہیں کہ یوسف خان نے کہا کہ ہم یہ خبر لگانے کا رسک نہیں لے سکتے، جیالے ہمیں بہت ماریں گے۔ لیکن چند دنوں بعد یہ خبر درست ثابت ہوگئی۔ بعد میں یہ بات بھی ہتا چلی کہ بھٹو کے دونوں بیٹوں کی افغان بہنوں سے شادیاں بھی ضیاء حکومت کا کمال تھا جبکہ دوسری طرف یہ بھی اطلاع کے مطابق پتہ چلا کہ بے نظیر اور آصف زرداری کی شادی ذوالفیقار علی بھٹو اور حاکم علی زرداری کی دوسری بیویوں نصرت اور ٹمی کا مشترکہ کارنامہ تھا۔ ٹمی زیڈ اے بخاری کی صاحبزادی تھیں جو ممتاز براڈ کاسٹر اور صدا کار تھے۔

شبیر احمد صدیقی نے بے نظیر اور عبدالرحمان کے عنوان سے کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ بے نظیر کی زندگی میں دو عبدالرحمان بڑی اہمیت رکھے تھے، ایک سابق سینیٹر ملک عبدالرحمان اور دوسرے عبدالرحمان عرف ڈکیت۔ ملک صاحب نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان ڈیل کروائی تھی جس کے تحت مشرف صدر اور وزیراعظم بے نظیر ہوتیں۔ اس ڈیل کو این آر او کے نام سے قانونی شکل دے دی گئی تھی لیکن ملک عبدالرحمان صاحب جو بے نظیر کے سیکورٹی انچارج تھے، لیاقت باغ کے جلسے کے بعد انہیں تنہا چھوڑ گئے تھے جس کے کچھ دیر بعد بے نظیر کا قتل ہوگیا۔ بعد میں ملک صاحب کو سنیٹر بنادیا گیا تھا۔

دوسرے عبدالرحمان جو ڈکیت کے نام سے جانے جاتے تھے، وہ تھے جنہوں نے کراچی میں کارساز کے قریب  بے نظیر کے قافلے پر بم حملے کے بعد انہیں انتہائی برق رفتاری سے بلاول ہاؤس پہنچا کر ان کی جان بچائی تھی۔ ان کی گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث ایک نجی ٹی وی کے کیمرا مین سمیت متعدد ان کی گاڑی سے کچل کر مارے گئے تھے۔ بعد میں کچھ عرصے بعد عبدالرحمان عرف ڈکیٹ کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔

شبیر صدیقی نے صحافت کے عملی ایام کا زکر کرتے ہوئے روزنامہ جسارت کی ملازمت اور اس سے اس وقت وابستہ اپنے ساتھیوں ظہور نیازی، ادریس بختیار، مولانا صلاح الدین،  کشش صدیقی اور اس وقت کے اسپورٹس و پولیٹیکل رپورٹر  نذیر خان اور ایڈیٹر الطاف حسن قریشی کا بھی خصوصی ذکر کیا ہے۔