سیاسی بنجارے

358

سیاست میں مفادات کی خاطر وفاداریاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں۔ ویسے تو یہ کام دنیا بھر میں ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ فصلی بٹیرے اور سیاسی بنجارے کہلاتے ہیں۔ وفاداریاں بدلنے کا یہ کام کسی نظریے یا اصولی اختلاف کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ جلب منفعت اور اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کسی ایک جماعت کا ٹکٹ لے کر اس کے منشور سے اتفاق کرتے ہوئے عوام کے پاس جاتے ہیں اور عوام بھی پارٹی سے وابستگی رکھتے ہوئے ووٹ دیتے اور کامیاب کرواتے ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ اپنی پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے کسی دوسری، خاص طور پر برسر اقتدار پارٹی سے جا ملتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے رائے دہندگان کو دھوکا دینے اور ان کے ووٹ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو اپنی پارٹی سے کسی بھی بنیاد پر اختلاف ہو تو اس کا جائز طریقہ تو یہ ہے کہ پارٹی چھوڑ کر رکنیت واپس کرے اور نئے سرے سے انتخاب لڑے اور اپنی مقبولیت آزما لے۔ بدقسمتی سے یہ سیاسی خانہ بدوش برسر اقتدار پارٹی کی چھتر چھایا میں بسیرا کرتے ہیں اور حسب توفیق مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عارضی فوائد کے لیے سیاست دان اور عوامی نمائندے کہلانے والے بنجارے اپنی ساکھ دائو پر لگانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ کرکٹ کی ٹیموں میں کچھ کھلاڑی قابل فروخت ہوتے ہیں اور بڑی رقم کے حصول کے لیے غیر قانونی اقدامات سے گریز نہیں کرتے۔ ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ساری عمر کھیل کر بھی اتنی رقم نہیں مل سکتی جتنی بے ایمانی سے مل رہی ہے۔ کچھ پکڑے جاتے ہیں اور کچھ بچ نکلتے ہیں۔ یہ سیاسی بنجارے بھی اسی قبیل کے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اسپاٹ فکسنگ یا کسی بکی سے مل کر کھیل خراب کرنے والوں کے مقابلے میں وفاداریاں بدل لینے والے نام نہاد سیاست دان دوسری پارٹی میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف خود ایسے ہی لوٹوں اور بنجاروں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں بیشتر دوسری جماعتیں چھوڑ چھوڑ کر آئے ہیں۔ کسی کا تعلق پرویز مشرف سے رہا، کسی کا پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے۔ مفاد پرست لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ دو پیسے کا فائدہ کہاں ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں مسلم لیگ ن کے 6 ارکان باقاعدگی سے تحریک انصاف میں تو شامل نہیں ہوئے لیکن عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقاتیں ان کے عزائم ظاہر کر گئی ہیں۔ انہوں نے قیمت بھی وصول کرلی ہے اور منحرف ارکان پنجاب کو 10، 10 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے۔ ان پر وزیراعلیٰ ہائوس کے دروازے بھی چوپٹ کھل گئے۔ ان منحرفین کے سرخیل نشاط ڈاہا نے تصدیق کی ہے کہ ہر ایک کو یہ رقم ملے گی۔ حکومت پنجاب کو ارکان اسمبلی کی حیثیت سے ترقیاتی فنڈز دیے تھے تو یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا اور جنہوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کا اعلان نہیں کیا انہیں بھی ترقیاتی فنڈز ملنے چاہییں۔ لیکن اس کے لیے شرط بے وفائی ہے۔ اطلاعات تو یہ ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے صرف یہ چھ ارکان ہی نہیں، اور بھی کئی کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔