پاکستان وبا سے محفوظ مگر…

849

کورونا کے نام پر جتنے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں ، وہ ناقابل سمجھ ہیں ۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں کورونا کے صرف 30 مریض ہیں اور ان میں سے ایک کی بھی حالت تشویشناک نہیں ہے ۔ تاہم کورونا کے نام پر پورے ملک میں افراتفری پھیلادی گئی ہے ۔ سارے تعلیمی ادارے بند ، مدارس بند، پارک ، سنیما گھر سمیت ساری تفریح گاہوں پر تالا ، تمام درگاہیں و مزارات بند ، عرس پر پابندی ، یوم پاکستان کے سارے پروگرام منسوخ ، اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے بغیر پی ایس ایل کے میچ ، شادی بیاہ کے اجتماعات پر پابندی، نماز جمعہ مختصر ترین وقت میں ادا کرنے کا حکم وغیرہ وغیرہ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں خوف کا ماحول بنادیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ ایسے ملک میں ہورہا ہے جس کے صرف ایک شہر کراچی میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے روز ڈیڑھ سو سے زاید واقعات ہوتے ہیں ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اس معاملے میں زیادہ پھرتیلے ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے وہ اقدامات بھی کرڈالے ہیں جو شاید کسی قدرتی آفت کی صورت میں بھی سندھ حکومت نہ کرتی ۔ سمجھ میں نہیں آرہا آخر عمران خان نیازی اور سید مراد علی شاہ چاہتے کیا ہیں ۔ کیا انہیں اندازہ ہے کہ اُن کے ان اقدامات سے ملک پر اور شہریوں پر کیا اثرات مرتب ہوںگے ۔ کورونا سے تو شاید ملک میں کوئی نہ مرے مگر حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں غربت اور بھوک سے لوگ ضرور مرجائیں گے ۔ اگر کوئی آفت آ بھی جائے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بردباری کا مظاہرہ کرے اور شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے بجائے مذکورہ آفت کے تدارک کے لیے اقدامات کرے ۔ حکومت بتائے کہ اس نے کورونا وائرس سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں ۔ اب تک حکومت کے جو اقدامات سامنے آئے ہیں وہ محض قرنطینہ کا قیام ہے ۔ خوش قسمتی سے کورونا نے پاکستان میں وبا کی صورت اختیار نہیں کی ہے ۔ اب تک جتنے بھی افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے ، وہ سب دیار غیر سے وطن واپس لوٹے ہیں اور وہیں پر انہیں کورونا کا مرض لگا ۔ ابھی تک پاکستان میں بھی ایک ایسا مریض سامنے نہیں آیا ہے جسے پاکستان کے اندر ہی کسی دوسرے فرد سے یہ مرض لگا ہو ۔ یہ انتہائی خوش کن صورتحال ہے اور اس وائرس کو روکنے میں انتہائی ممد و معاون بھی ہے۔ یعنی باہر سے آنے والے افراد پر نظر رکھی جائے اور بس ۔ حکومت یہ سب کربھی رہی ہے تو پھر ملک میں شادی ہالوں پر تالے ، نماز جمعہ کے اجتماعات کو مختصر کرنے ، تفریح گاہیں بند کرنے ، مزارات و درگاہیں بند کرنے جیسے اقدامات کیوں کیے جارہے ہیں ۔ تعلیمی ادارے کیوں بند کردیے گئے ہیں اور امتحانات وقت پر لینے کے بجائے کیوں منسوخ کردیے گئے۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میںمزید تباہی پھر جائے ۔ عمران خان نیازی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک پہلے ہی شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے ۔ عمران خان نیازی کی احمقانہ معاشی پالیسیوں نے ملک کو ایسی دلدل میں پھنسادیا ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ پہلے تو ملک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے دیے گئے املا پر چلا کرتا تھا ، عمران خان نیازی نے تو مزید کمال یہ کیا کہ ملک کی معیشت ہی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے کارندوں کے براہ راست حوالے کردی ۔ ہم حکومت سے درخواست کریں گے کہ ملک میں کورونا کے نام پر غیر ضروری اقدامات کرنے سے گریز کیا جائے اور شادی ہال ،مزارات اور تفریح گاہیں بند کرنے جیسے اقدامات کو واپس لیا جائے ۔ اسی طرح تعلیمی ادارے بھی کھولے جائیں اور نویں و دسویں جماعت کے امتحانات بھی بروقت لینے کے انتظامات کیے جائیں ۔ کورونا وائرس پر ضرور نگاہ رکھی جائے اور غیر ممالک خصوصی طور سے ایران سے آنے والوں کی ضرور سخت چیکنگ کی جائے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر پورے ملک کا لاک ڈاؤن کردیا جائے ۔ حکومت کورونا کے پیچھے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے بجائے اصل کاموں پر توجہ دے ۔ سندھ حکومت صفائی ستھرائی ، آوارہ کتوں کو مارنے ، سیوریج کے نظام کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دے ۔ اسی طرح وفاقی حکومت ترقیاتی کاموں پر توجہ دے ، روپے کی قدر کی بہتری ، پٹرول و گیس کے نرخوں میں کمی اور بجلی کی مسلسل فراہمی اور اس کے نرخوں میں کمی کرے ۔ ملک میںمسلط آئی ایم ایف کی ٹیم کی چھٹی کی جائے اور ملک کے مفاد میں معاشی اقدامات کیے جائیں ۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ قوم اس وائرس سے نہ گھبرائے، وہ خود کورونا کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے تمام اقدامات اس کے برعکس ہیں اور قوم کو خوف میں مبتلا کر رہے ہیں۔