کورونا وائرس اور پاکستانی معیشت

806

 

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

کوروناوائرس چین کے شہر ووہان سے نکل کر آخری اطلاعات آنے تک 126ممالک میں تباہی پھیلانے پہنچ گیا ہے۔ 5000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ کئی لاکھ متاثر ہیں۔ جن میں اٹلی اور پولینڈ کے آرمی چیف اور برطانیہ کی وزیر صحت بھی شامل ہیں۔ جب کہ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اسے عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ زیادہ تر متاثر ممالک نے اپنی سرحدیں دوسرے ممالک کے لیے بند کردی ہیں۔ اس کے باعث سیروسیاحت کی صنعت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ فائیو اسٹار اور فور اسٹار ہوٹلوں کے کمرے خالی پڑے ہیں۔ بے شمار بین الاقوامی اور ملکی سیمینارز، ورکشاپس، کانفرنسز، ٹریننگ پروگرامز اور دورے منسوخ کردیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے روک دیے گئے ہیں۔ ائرلائن انڈسٹری اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کئی ائرلائنز کمپنیاں بند ہوچکی ہیں۔ باقی نے اپنے ملازمین کو رخصت پر بھیج دیا ہے اور ہزاروں ملازمین نوکریوں سے فارغ کردیے گئے ہیں۔ متاثرہ ممالک میں لوگ گھر بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لیے مارکیٹیں اور ریسٹورنٹس خالی پڑے ہیں۔ بڑی بڑی اسٹاک مارکیٹیں جو امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہانگ کانگ، ٹوکیو، بمبئی، بیجنگ میں قائم ہیں شدید مندی کا شکار ہیں۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی ڈھائی ہزار پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 37 ڈالر فی بیرل چل رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث عالمی معیشت کو کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
پاکستان میں حکومتی حلقے کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ چاہے وہ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر ہوں یا مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ یا مشیر تجارت عبدالرزاق دائود۔ کہا جارہا ہے کہ تیل کی قیمت کم ہونے سے امپورٹ بل کم ہوجائے گا جس سے تجارتی خسارہ کم ہوگا۔ مزید یہ کہ پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہوجائیں گی جس سے مال برداری کے اخراجات کم ہوں گے، اس طرح مہنگائی میں کمی آئے گی۔ کرنٹ اکائونٹس خسارہ جو کم ہورہا ہے وہ مثبت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایل این جی (LNG) کی قیمت خام تیل کے نرخ سے منسلک ہے۔ تیل کی قیمت کم ہونے سے ایل این جی سستی ہوسکتی ہے جس سے سیمنٹ اور کھاد کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔ لیکن یہ سب مہنگائی اور بے روزگاری سے ستائے ہوئے پریشان حال عوام کے لیے صرف تسلیاں اور تھپکیاں ہیں، خوش گمانیاں ہیں۔ پچھلے ماہ جب تیل کی قیمتوں میں 19 فی صد کمی ہوئی تو حکومت نے کب اس کا فائدہ عوام کو پہنچایا۔ پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں صرف 5 فی صد کمی کی۔ حکومت تو اسے اپنی آمدنیاں بڑھانے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس وقت بھی مسلسل ٹیکس کی وصولی ہدف کے مطابق نہیں ہورہی اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.5 فی صد ہوگیا ہے۔ چناں چہ اس کی امید کم ہے، عوام کے نصیب اچھے ہوجائیں گے اور انہیں پٹرول اور ڈیزل سستے داموں ملنا شروع ہوجائے گا۔ ٹیکس کی وصولی ایف بی آر کے عملے کا کام ہے وہ اگر ایمانداری اور جانفشانی سے کام کرے تو وہ ہدف سے آگے جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی وصولی اس کی معیشت کے پوٹینشل سے 62 فی صد کم ہے اور اس کی وجہ سالہا سال سے ایف بی آر کی ناقص کارکردگی، بدعنوانی اور عدم دلچسپی ہے۔ حکومت نے اعلان کردیا ہے کہ اگر ٹیکس کم جمع ہوا تو ترقیاتی اخراجات میں سو ارب روپے کی کمی کی جاسکتی ہے اور یہ بات اس سے پہلے بھی کی جاچکی ہے کہ ٹیکسوں میں کمی کا خمیازہ غریب عوام ہی کو بھگتنا ہوتا ہے۔ تمام بڑے کاروباری شعبے ہی میں نامی گرامی پرائیویٹ اسکولز، ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالز کی چین، شادی ہال اور بینکویٹ، مٹھائی اور بیکری کا کاروبار کرنے والے، اسپتال اور کلینکس، میڈیکل اور کریانہ اسٹورز وغیرہ ایف بی آر کی زد میں نہیں آتے۔
چین کے کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے دوسرے ممالک سے اس کا رابطہ کٹ چکا ہے جس سے اس کی بین الاقوامی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ نتیجتاً وہ ایکسپورٹ آرڈر جو چین کی طرف جاتے تھے اُن کا کچھ حصہ پاکستان کو مل گیا ہے اور اس سے فروری کے مہینے میں ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان میں 40 فی صد مشینری 25 فی صد صنعتی خام مال چین سے آتا ہے۔ اگر خام مال کی سپلائی کم ہوتی ہے تو پیداوار میں کمی ہوگی اور اسی طرح پاکستان چاول اور ٹیکسٹائل چین کو برآمد کرتا ہے اس پر منفی اثر ہوگا۔ اس لیے ہمیں دنیا کی کسی پریشانی کو اپنے لیے بہتر سمجھنے کے بجائے اندرونی حالات کو بہتر کرنا ہوگا۔ ابھی تک آٹا اور چینی کے وہ مافیاز جنہوں نے قلت پیدا کرکے خوب منافع کمایا تھا اور عمران خان بار بار یہ اعلان کرتے ہیں یہ لوگ نہیں بچیں گے اور اُن کو سخت سزا ملے گی۔ تحقیقات کے لیے پہلے کمیٹی بنائی گئی اب کمیشن بنادیا گیا اور یہ معاملے کو دبانے کی کوشش ہے۔ آج بھی افغانستان کی سرحد سے آٹا، گندم، چینی اور پیاز کی اسمگلنگ جاری ہے اور حکومت اسے روکنے میں ناکام ہے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ عوام کو تسلی دے رہے ہیں کہ معیشت میں استحکام آگیا ہے اب مہنگائی کم ہوگی، حالات بہتر ہوں گے، یہ تسلیاں عوام کئی ماہ سے سن رہے ہیں اور یہ کب سچ ثابت ہوں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔