ڈاکٹر شجاع صغیر صدیقی
ہم عزت کو روتے رہتے ہیں اگر کسی نے گالی دے دی تو بات عزت تک لے جاتے ہیں جب کہ خود دن بھر لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں تو دوسرے کی عزت نظر نہیں آتی۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ عزت کس طرح سے ملتی ہے۔ عزت کا فلسفہ یہ ہے کہ عزت دو، عزت لو، آج معاشرے میں مجھے اللہ نے مقام عطا کیا اس کی وجہ اول عزت دو، عزت لو ہے۔ دوسری چیز آتی ہے حسن اخلاق آپ کا اخلاق جتنا اچھا ہوگا گالیاں دینے والا بھی آپ کا اخلاق دیکھ کر گالیاں دینا بند کردے گا۔ ایک اہم چیز ہے برداشت، آپ نے یہ جملہ ضرور سنا ہوگا ’’زبان شیریں ملک گیری‘‘ شیریں زبان۔ ساتھ حسن اخلاق ہو تو انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے، ہمارے معاشرے میں عزت اور غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں کبھی کاروکاری کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، لڑکے اور لڑکی کو پسند کا حق اللہ نے دیا ہے مگر خاندانی رنجش، رتبہ اس عمل کو پسند نہیں کرتا، ایک چودھری یا سردار یہ کس طرح سے برداشت کرسکتا ہے کہ اُس کا نوکر اس کی بیٹی کو پسند کرے، چودھری ہو یا سردار وہ اُس غریب مزارع کے پورے خاندان کو قتل کردیتے ہیں۔ آج کے ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کی وجوہات تو بہت ہیں مگر اس کی ایک وجہ پسند اور ناپسند بھی ہے جب کہ والدین کی یہ اخلاقی اور شرعی ذمے داری ہے کہ نکاح سے پہلے لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی معلوم کریں۔ مجھے یاد ہے کہ میں اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھا اور پروفیسرز کا اتنا احترام ہوتا تھا کہ اگر پان کھاتے تو ان کو دیکھ کر فوراً تھوک دیتے تھے، سگریٹ پیتے تو ان کو دیکھ کر فوراً سگریٹ کو پھینک دیتے، یہ حال اسکول کے زمانے میں بھی تھا۔ ہمارے اسکول کی مالک ارجمند شاہین قزلباش ایک نہایت قابل اور بہادر عورت تھیں اگر وہ کلاس کے باہر آکر کھڑی ہوجاتی تھیں، پوری کلاس کا دم نکل جاتا تھا، میٹرک کے بعد جب ہم کالج میں تھے تو ان کے انتقال کی خبر ملی، میں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کیا اور بہت رویا۔ یہ ہوتے تھے استاد اور شاگرد اور ان سے محبت پھر سیاست دانوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے درس گاہوں کا رُخ کرلیا۔ طالب علم درس گاہوں میں تشدد کرنے لگے، تعلیم میں مزید بگاڑ تب آیا جب پروفیسرز سفارش پر بھرتی ہونا شروع ہوگئے، پھر زمانہ آگیا کوچنگ سینٹرز کے وہ پروفیسر جو کالج میں ایک کلاس نہیں لیتے وہ کوچنگ سینٹرز میں بھاری تنخواہوں پر پڑھاتے ہیں۔ سرکار سے مفت میں گریڈ 18 کی تنخواہ وصول
کرتے ہیں، آج بھی کالجوں کا نظام کچھ اسی طرح سے چل رہا ہے، شعبہ تعلیم کو بڑی توجہ کی ضرورت ہے، ہمیں پروفیسر طلحہ عمر، پروفیسر سلمان رضا، پروفیسر ساجدہ ظہیر، پروفیسر انور برقی، پروفیسر وقار، پروفیسر شکیل فاروقی جیسے علم دوست کی ضرورت ہے۔ یہ وہ پروفیسرز ہیں جن کی میں بے حد عزت کرتا ہوں۔ اب بات کرتے ہیں خدمت انسانی جو ہر انسان کرسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ خدمت مال سے ہی کی جائے۔ ہربل ڈاکٹر ناصر سلیم ناسا کا خدمت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی مریض سے ایک روپیہ نہیں لیتے اُن کو طلب ہے بس دعا کی، خدمت کرنے والے لوگ معاشرے میں کم نہیں ہیں۔ میرے استاد گرامی محمد محسن اللہ اُن کو صحت اور ایمان کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے، اُن کا انداز خدمت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے، ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو، اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے اللہ نے علم بے حساب عطا کیا ہے ہاتھ سے بھی خدمت کرتے ہیں اور قلم سے بھی۔ عبدالستار ایدھی صاحب اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے خدمت انسانی کا عملی نمونہ تھے، مزاج میں بے پناہ سادگی، عاجزی، انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میر حفاطت حسین میرے سماجی استاد آپ کا انداز خدمت بھی اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ JDC کا نوجوان ظفر عباس جس پر ہر وقت خدمت کا بھوت سوار رہتا ہے عوامی مسائل پر جس انداز میں وہ فوکس کرتے ہیں اپنی مثال آپ ہیں۔ ظفر عباس غربت کے خلاف جس طرح سے معاشرتی جنگ لڑ رہے ہیں میری دعا ہے کہ اللہ ان کی مدد اور حفاظت فرمائے۔ SUIT کے ڈاکٹر ادیب رضوی عملی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارے اپنے وزیراعظم عمران خان صاحب نے شوکت خانم کے نام سے خدمت انسانیت کا عملی کام شروع کر رکھا ہے۔ رہنما سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کی پوری ٹیم سیما حفظ، شاکر رضا، پرویز علی، کرنل احتشام الدین صحت کے ساتھ شجرکاری کا کام کرتے ہیں۔ جان جگنو اپنے علاقے کی عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ رمضان چھیپا، عارف لاکھانی، حاجی حنیف طیب، مناف بھائی SHED کے نام سے کام کررہے ہیں۔ والدین کی خدمت تو ہر ذی شعور انسان کرتا ہے مگر میری شاگرد ڈاکٹر انیلہ قیوم 10 سال سے جس طرح سے اپنی ماں کی خدمت کررہی ہے آج کے معاشرے میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آخر میں آپ تمام قارئین سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ کو اللہ کا واسطہ اگر آپ کے والدین اور بزرگ حیات ہیں تو اُن کی خدمت کریں۔ کوئی سائل اللہ کے نام پر طلب کرے تو جو آپ دے سکتے ہیں بڑی عزت اور احترام سے دیں کیوں کہ آپ فقیر کو جو دے رہے ہیں اس میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ پاکستان سے محبت کریں۔