نظام عدل کا پرنالہ!

285

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے اس فرمان سے انکار کی گنجائش ہی نہیں کہ سائلین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گویا! چیف جسٹس پاکستان بھی نظام عدل اور عدالتوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں لیکن ان کے بیان اور ان کے پیش رو چیف جسٹس صاحبان کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آٹی ہے کہ نظام عدل کے چودھریوں کا بیانیہ اور کارکردگی یہی رہی ہے کہ ہر ادارے کا سربراہ اپنے پیش رو کی کارکردگی اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا اپنا فریضہ گردانتا ہے اور ملک و قوم کو یہ یقین دلانا فرض سمجھتا ہے کہ جو لوگ اس ادارے کی سربراہی کرتے رہے ہیں اپنی ذمے داریوں اور اپنے فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں عدالتی پالیسی ساز کمپنی کا اجلاس بڑی دھوم دھام سے ہوا اور بڑے اہم فیصلے صادر کیے گئے۔ فیصلوں میں کہا گیا کہ تمام خصوصی عدالتیں اور ٹربیونلز میں کیس فلو مینجمنٹ سسٹم متعارف کرائے جائیں۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ قومی عدالتوں میں آٹو میشن یونٹ قائم کیے جائیں۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ نیشنل جوڈیشل آٹو میشن یونٹ مقدمات کی مانیٹرنگ کے لیے تمام صوبوں کے لیے سینٹر لائزیشن بورڈ تیار کیے جائیں اور زیر سماعت مقدمات نمٹانے کے لیے تمام عدالتوں اور ٹربیونلز میں فوری طور پر ججز تعینات کیے جائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے پیش رو صاحبان نے بھی ایسے بہت سے اقدامات کے فیصلے کیے تھے مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ نظام عدل کا پرنالہ اپنی جگہ ہی بہتا رہا۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ اصل مسائل اور اصل خرابیوں کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔ ایک جج کی میز پر سو، ڈیڑھ سو مقدمات کی فائلیں رکھ دی جائیں تو فوری انصاف کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے۔
کوئی صاحب اختیار یہ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں کہ مقدمات کے انبار کی وجہ کیا ہے۔ نظام عدل کی بنیادی خرابی کیا ہے؟ جعلی مقدمات کی سماعت کیوں کی جاتی ہے۔ عدل ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل در اپیل سماعت کس قانون کے تحت کی جاتی ہے۔ مخالفین کو رسوا کرنے، انہیں ذہنی اذیت دینے اور ان کی جائداد ہڑپ کرنے کے لیے مقدمات دائر کرنا ایک فیشن کی صورت اختیار کرچکا ہے اور المیہ یہ ہے کہ عدالتیں سہولت کاری کرتی ہیں۔ جس کا جی چاہے مقدمہ دائر کردے اور پھر پیشی در پیشی کے اڑن کھٹولے میں اُڑتا پھرے۔ سوال یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا کہ زیر نظر مقدمہ قابل سماعت بھی ہے یا نہیں۔ فوری انصاف کی فراہمی کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ فیصلہ ضروری ہے کہ مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں۔ بھارت میں سماعت سے قبل یہ انکوائری کی جاتی ہے کہ الزام درست ہے یا نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عدل ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کو طوالت دینے کے لیے اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، جب تک یہ چکر چلتا رہے گا اور ہر آنے والا چیف جسٹس پاکستانی قوم کو فوری انصاف کی خوش خبری کی نوید سناتا رہے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ فوری انصاف کی فراہمی میں ججوں کی کمی بھی ایک وجہ ہے مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عدالتیں جعلی مقدمات کی سماعت کرتی ہیں اور پھر پیشی در پیشی کا کھیل کھیلتی ہیں۔ اگر نظام عدل اس اذیت ناک عمل کا سدباب کردے تو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر پرنالہ وہیں بہتا رہے گا۔