مہنگائی محرکات

203

ان دنوں مہنگائی میں جو تھوڑی بہت کمی واقع ہورہی ہے اسے حکومت کی سخت پالیسیوں کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے اور مشورے باز بغلیں بجارہے ہیں۔ خدا جانے وزیراعظم عمران خان کب تک مرغی، انڈے اور کٹوں کی سیاست میں گھرے رہیں گے۔ بدنصیبی یہ بھی ہے کہ بااختیار، بااثر اور مقتدر طبقہ ملکی حالات سے واقف ہی نہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ بھنڈی کی پہلی کھیپ مارکیٹ میں آتی ہے تو دو سو بیس روپے فی کلو فروخت ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ کم ہوتے ہوتے بیس روپے فی کلو بکنے لگتی ہے۔ اسی طرح دیگر سبزیاں پہلے پہل بہت مہنگی ہوتی ہیں مگر جوں جوں ان کی پیداوار میں اضافہ ہونے لگتا ہے سبزی منڈیوں میں ان کا انبار لگنے لگتا ہے تو مہنگائی میں کمی ہونے لگتی ہے۔ دو ماہ قبل ٹماٹر دو سے تین سو روپے فی کلو فروخت ہورہے تھے آج بیس سے تیس روپے فی کلو فروخت ہورہے ہیں۔ سبزیوں کا مہنگا اور سستا ہونا ان کی پیداوار پر منحصر ہوتا ہے اور یہ معمول کی بات ہے۔ مہنگائی کی اصل وجہ حکومتی پالیسی اور اس
کی بدنیتی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پٹرول کی قیمت کا عالمی قیمت سے مطابقت کا نہ ہونا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے غریب آدمی کو ذہنی مریض بنادیا ہے گھی اور دالوں کی قیمتوں نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ اجناس کی قیمتوں کا تعین ان کی فصلوں کی پیداوار پر ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں قیمتوں کا تعین درآمد ہدایات ہوتا ہے۔ افسوسناک بلکہ شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت نرخوں میں اضافے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ عوام کی قوت خرید پر ضرب لگا کر فرمان جاری کرتی ہے کہ عوام کو مہنگائی برداشت کرنا ہوگی اور مزید مہنگائی کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں اضافے پر حکومت بھی اضافہ کرنا اپنا فرض اولین سمجھتی ہے مگر کمی واقع ہوجائے تو حکومتیں بہت کم کمی کرتی ہیں۔ خدا جانے کس پیر نے حکومت کو سابق حکومتوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرے تھے کا ورد کرنے کامشورہ دیا ہے۔ قیام پاکستان سے تحریک انصاف کی حکومت آنے تک سابق حکومتوں نے جو قرض لیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اتنا ہی قرض ڈیڑھ سال سے کم عرصے میں اہل وطن کے کندھوں پر لاد دیا ہے۔ لگتا ہے تحریک انصاف کی حکومت اس دانش ور کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو کہتا تھا کہ جھوٹ کو سچ کا روپ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ اس کے نیچے دب جائے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ سچ کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ہی اُبھرتا ہے۔ حکومت اور اس کے ڈھولچی چلا چلا کر عوام کو خوش خبری سنارہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اقدامات نے مہنگائی کو نکیل ڈال دی ہے۔ حالاں کہ مہنگائی وبائی صورت اختیار کرچکی ہے۔ آٹا، چینی اور دالوں کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کی جارہی ہیں اگر مہنگائی مصنوعی ہے تو حکومت اس کے بارے میں کیا کررہی ہے۔ چینی، آٹا اور دالوں کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں آرہی؟۔