بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی فرمائش پر سرکاری ادارے نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں 98 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے پر غور شروع کردیا ہے اور اس سلسلے میں نیپرا 25 مارچ کو سماعت کرے گا ۔ ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا میں توانائی کی قیمتوں میں زبردست کمی دیکھنے میں آرہی ہے ، حکومت پاکستان نے ابھی تک ملک میں اس تناسب سے پٹرول و گیس کی قیمتوں میں کمی کااعلان نہیں کیا ہے ۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کی قیمتوںمیں اضافے کا مطالبہ ہی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں کیا ہے ۔ اصولی طور پر تو نیپرا کو یہ درخواست ہی مسترد کردینی چاہیے تھی نہ کہ اس کے لیے سماعت کی تاریخ مقرر کردی جائے ۔ نیپرا کو سرکار نے قائم ہی اس لیے کیا تھا کہ نجی شعبے میں قائم بجلی کی پیداواری کمپنیاں اور تقسیم کار کمپنیاں من مانی نہ کرسکیں ۔تاہم اب تک ایک مرتبہ بھی نیپرا نے اپنے قیام کے مقاصد کو پورا نہیں کیا اور عملی طورپر یہ نجی شعبے میں قائم بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی لوٹ مارمیں ان کا معاون و محافظ بنا ہوا ہے ۔ کے الیکٹرک جس طرح سے اپنے صارفین سے لوٹ مار کرتی ہے ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے مگر اس کے خلاف ایکشن لینے کا ذمہ دار ادارہ نیپرا ہر مرتبہ کے الیکٹرک کو عملی مدد فراہم کرتا ہے اور چند لاکھ کا جرمانہ کرکے اس کی ہر لوٹ مار کو قانونی حیثیت دے دیتا ہے ۔ بجلی بم کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہی ماہ میں تیسری مرتبہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی منظوری دی جائے گی ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ حکومت بھی نیپرا کو درست کرنے کے بجائے اس کی سرپرست بنی ہوئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی ہے ۔ سنگ مقید ہیں اور سگ آزاد ۔