یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ دنیا میں اکثر میڈیا کے ہنگامے اور کسی ملک پر حملے کی خبروں میں بہت اہم مسائل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کا بنیادی مسئلہ کشمیر ہے اور کورونا کے چکر میں پاکستانی حکومت کشمیر کو بھول چکی ہے یا وہ چاہتی بھی یہی تھی۔ لہٰذا کشمیر پاکستانی حکومت کی ترجیحات سے نکل گیا ہے۔ میڈیا، حکومت، اپوزیشن، دانشور ہر جانب سے کورونا وائرس کی تکرار ہے، ایسے میں کشمیر کی کون بات کرے گا۔ کشمیر میں لاک ڈائون کو سات ماہ ہوچکے لیکن کورونا کے لاک ڈائون کے شور میں کشمیر پاکستانی حکومت، میڈیا اور معاشرے کے سامنے سے ہٹ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایسی کوئی ہلچل نہیں ہورہی جس سے کشمیریوں کو حوصلہ مل سکے۔ پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ خود عمران خان نیازی کی حکومت ہے اس کے سربراہ نے عوام سے وعدے کیے تھے کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، پچاس لاکھ گھر بنائیں گے، غریب اور امیر کے لیے ایک ہی قانون لایا جائے گا۔ سب کو انصاف ملے گا، ٹیکس چوروں کو پکڑیں گے، دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مدینے جیسی ریاست بنائیں گے، لیکن 18 ماہ میں جو کچھ ہوا وہ سب ان وعدوں اور اعلانات کے خلاف نکلا۔ اب جب کہ لوگ اس پر سوال کرنے لگے تھے تو یہ کورونا وائرس آگیا اس کی اپنی ہلاکت خیزی سے زیادہ میڈیا کے پروپیگنڈے کے سبب لوگ خوفزدہ ہوگئے۔ اس خراب صورت حال کا فائدہ بھی نیازی حکومت کو ہوا اور لوگ اس کے وعدوں پر سوال کے بجائے کورونا پر سوالات کررہے ہیں۔ گندم اور چینی مافیا کو بھی بھول گئے سب نے بیٹھ کر قومی سلامتی
کے امور پر تبادلہ خیال کیا اور قومی سلامتی کورونا ہے، کشمیر، مہنگائی، افغانستان اور بھارت نہیں رہے۔
پاکستانی حکومت ہی جس کا سارا زور شریف خاندان اور زرداری خاندان کے خلاف بیان بازی پر صرف ہوتا تھا اب کورونا کے خلاف جہاد اور اقدامات کے اعلانات پر صرف ہورہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جتنا زور صرف ہورہا ہے اتنا ہی اعلانات ہورہے ہیں لیکن عمل کہیں نظر نہیں آرہا۔ اسی ہلے میں مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا ہی ایک کروڑ ماسک اسمگل کرنے میں لگ گئے۔ حیرت ہے ان کے خلاف کیس پر نیب نے انہیں ترنت گرفتار نہیں کیا۔ خیر ایسا تو ہوتا ہے دراصل یہ اس سائڈ کے آدمی ہیں اس لیے ان کی گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ کشمیر کا ذکر آیا تو ایک ایسی صورت حال سامنے آرہی ہے کہ پاکستانی قوم نے تو کبھی اس کا تصور نہیں کیا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے وہ نظر آرہی ہے یعنی لاک ڈائون ہوتا کیا ہے۔ کشمیریوں کے لاک ڈائون کو ساتواں مہینہ ہے اور یہ لاک ڈائون رضا کارانہ نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے سہولتوں بھرا نہیں ہے بلکہ بھارت کی درندہ صفت مودی سرکار کا جبری لاک ڈائون ہے۔ دنیا بھر میں سفری سہولتیں بند ہونا، بڑے اجتماعات سے گریز، شاپنگ مال میں
اشیائے ضرورت ناپید ہونا، یہ سب تو یورپ اور امریکا میں ہورہا ہے لیکن کشمیریوں کے لیے تو سات ماہ سے ایسی کوئی سہولت ہی نہیں تھی، شاپنگ مال تو کیا اشیائے ضرورت لے جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کورونا کے شور میں بھارتی حکومت نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ اس نے کشمیر میں جو مظالم ڈھا رکھے ہیں ان کے بجائے اب سب کورونا کا رونا رو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں ایک ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بیماری ہے، خطرناک بھی ہے لیکن اس سے جتنے لوگ مرسکتے ہیں اس سے زیادہ اس کے خوف کے سبب معاشی طور پر مرجائیں گے۔ کیوں کہ کاروباری سرگرمیاں ختم ہورہی ہیں، اس کے نتیجے میں ملازمتوں پر بھی اثر پڑے گا۔ ہوسکتا ہے مرکزی حکومت پاکستان میں کورونا کا ذمے دار بھی اپوزیشن کو قرار دے دے۔ اور اپوزیشن تو حکومت کو انتظامات میں سستی کا الزام دے رہی ہے۔ یعنی اب حکومت اور اپوزیشن اپنی جنگ کورونا کے میدان میں لڑیں گے۔ اسی ہلے میں امریکا نے القدس کے مسلمان باشندوں کو غیر قانونی شہری یا عرب باشندے قرار دے دیا ہے۔ امریکا نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر رکھا ہے اور اس نے اب فلسطینیوں کے بارے میں یہ جملہ استعمال کیا ہے کہ وہ القدس کے شہری نہیں ہیں۔ اس میں بھی ایک سازش ہے۔ لوگ احتجاج کریں گے اور وہ زیادہ بڑھ گیا تو انہیں اسرائیل کا شہری تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس طرح اسرائیل کا جواز تسلیم کرلیا جائے گا لیکن کورونا کے چکر میں یہ خبر بھی دب گئی۔
کورونا نے عدالت عظمیٰ کے بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد کو بھی ڈھانپ لیا۔ 15 دن میں سرکلر ریلوے بحال کرنے، پھر دو ماہ میں بحال کرنے پر چھ ماہ میں بحال کرنے اور تمام غیر قانونی عمارتیں توڑ دینے کے حکم کے بعد توڑ پھوڑ کرنے والوں نے وہی کیا جو وہ عدلیہ کے پچھلے احکامات کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ نہ تو کسی مخدوش عمارت کو توڑا اور نہ کسی غیر قانونی عمارت کو بلکہ آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کے مطابق 18 اداروں سے این او سی لینے کے باوجود عمارتیں توڑی جارہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر میں چائنا کٹنگ کے بادشاہ وزیر اور پیادے ہیں یہ توڑ پھوڑ بھی کررہے ہیں۔ کسی نے ان 18 اداروں کے افسران سے نہیں پوچھا کہ این او سی کیوں دیا تھا۔ ان کو کس نے اجازت دی تھی کہ شہر کی قیمتی زمین پر غلط این او سی دیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ زمینوں پر این او سی دینے کا اختیار کس کا ہے۔ اکثر قانون نے اجازت دے رکھی ہے تو پھر الاٹی کا حق ہے اور اگر قانون نہیں ہے پھر بھی این او سی دے دیا گیا ہے تو بھی ادارہ ذمے دار ہے۔ اس شور میں بحریہ ٹائون کے متاثرین کا کیس بھی دبنے لگا ہے لیکن جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی اور جماعت اسلامی مذاکراتی کمیٹی کا بھلا ہو جو اس مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہے ورنہ یہ بھی کورونا کی نذر ہوجاتا۔ یہ کورونا گزر جائے گا لیکن جس طرح وزیراعظم کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اسی طرح آپ نے بھولنا نہیں ہے۔ کورونا گزرتے ہی سوالات اٹھانے ہیں۔ ایک کروڑ ملازمتیں کہاں ہیں، پچاس لاکھ گھر کہاں ہیں، مدینے کی ریاست کہاں ہے، لوٹا ہوا پیسہ کہاں گیا، چینی اور آٹا مافیا کے نام تو وزیراعظم نے کہا تھا مجھے معلوم ہیں تو بتائو مافیا کے نام۔ آپ نے بھولنا نہیں ہے۔