غالب سے آغاز کرتے ہیں:
ایک روز دوپہر کا کھانا آیا۔ دستر خوان بچھا۔ برتن بہت تھے مگر کھانا قلیل۔ مرزا مسکرا کر بولے ’’برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے تو میرا دستر خوان یزید کا دستر خوان معلوم ہوتا ہے مگر کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو با یزید کا‘‘۔ کورونا وائرس کا بھی یہی حال ہے۔ وسعتیں دیکھیں تو یہ وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب تک ایک سو سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے سوا لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوئے۔ لیکن مرنے والوں کی تعداد محض چار پانچ ہزار۔ یاد رہے کہ کورونا وائرس کے متاثرین کی اکثریت جلد صحت یاب ہوگئی لیکن ان کا ذکر کم اور بہت کم جب کہ اموات کے تذکرے طویل اور بہت طویل۔ ایک فرد کی موت بھی افسوس ناک ہے لیکن کورونا کا میڈیا پر شور، پروپیگنڈے کے طوفان اوراس کے مقابل اموات کی شرح دیکھیں تو وہی غالب کے دستر خوان کی صورت نظر آتی ہے۔ کورونا وبا ہے۔ احتیاطی اقدامات یقینا ناگزیر ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ضروری ہے کہ عوام کو آگاہ کیا جائے کہ کورونا سے موت کے امکانات محض 3فی صد ہیں۔ احتیاطی اقدامات اس طرح اٹھائے جارہے ہیں جیسے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نے حملہ کردیا ہو جس سے بچنا انتہائی مشکل ہے۔ جتنی اموات اب تک کورونا سے ہوئی ہیں اس سے زیادہ اموات تو امریکا، روس اور اسرائیل کے معمول کے فضائی حملوں میں شام اور فلسطین میں ہوجاتی ہیں جن کی کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں عراق میں پانچ لاکھ سے زائد بچوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں کس کی پیشانی عرق آلود ہوئی؟ میڈیا نے اس انسانی المیہ پر کتنا شور مچایاتھا؟ ٹی بی اور کینسر سے ہر سال لا کھوں اموات ہو جاتی ہیں۔
31دسمبر 2019 کو چین میں اس بیماری کا پہلا مریض سامنے آیا۔ 11جنوری 2020 کو چین میں اس وائرس سے پہلی موت ہوئی اور اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے میڈیا میں وہ شور برپا کردیا گیا جیسے یہ اس کرہ خاکی پر موت کا پہلا حادثہ ہوا ہے۔ ساری دنیا نے چین سے رابطے منقطع کردیے۔ ایسا تاثر دیا گیا جیسے چین سے آنے والا ہر فرد اور ہر چیز کورونا وائرس کی کیریر ہے۔ چین سے آنے جانے والی پروازیں منسوخ کردی گئیں، سیاحوں کی آمد ورفت پر پابندی لگادی گئیں، ویزوں کا اجرا روک دیا گیا۔ دنیا بھر میں چین اور اہل چین کو نکو بنا دیا گیا۔ اور پھر دیکھتے دیکھتے ایران اٹلی جنوبی کوریا اور نہ جانے کن کن ممالک کی سرحدیں سیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اسکول کالج یونی ورسٹیاں بند کردی گئیں۔ کھیلوں کے مقابلے روک دیے گئے۔ ائر پورٹ دل ویراں کے مناظر دکھانے لگے۔ سیاحت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کارحجان غالب ہے۔ صرف نو دنوں میں عالمی حصص بازاروں میں 90کھرب ڈالر کا سرمایہ ڈوب گیا ہے۔ کورونا وائرس سے خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ ایک ماہ میں امریکی تیل کی قیمتوں میں 15فی صد کمی آگئی۔ چین امریکا کے بعد دنیا میں تیل کا سب سے بڑا صارف ہے۔ اس کی شرح ترقی کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے تیل کی کھپت کم ہوگئی۔ جب چین کی درآمد برآمد کم ہوتی ہے تو باقی دنیا کی امپورٹ ایکسپورٹ بھی متاثر ہوتی ہیں۔ تیل کی پیداوار اور قیمتوں کے معاملے میں سعودی عرب اور روس جو دنیا میں تیل کے سب سے بڑے سپلائرز ہیں ان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ روس کا موقف یہ ہے کہ تیل کی پیداوار کم کردی جائے لیکن قیمتیں برقرار رہنی چاہییں۔ قیمتیں کم کرنے سے امریکی شیل گیس کمپنی کو فائدہ ہوگا جو روس کو گوارا نہیں۔ سعودی عرب کا موقف اس کے برعکس ہے۔ وہ پیداوار برقرار رکھنا اور قیمتیں کم کرنا چاہتا ہے بلکہ عملاً اس نے ایسا کر بھی دیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ڈیمانڈ کم ہونے کی وجہ سے ویسے ہی تیل کی قیمتیں کم کردی گئی تھیں اب جان بوجھ کر تیل کی قیمتیں مزید کم کردی گئیں۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ تیل تمام ممالک کی ترقی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ممالک جو تیل امپورٹ کرتے ہیں انہیں بے حد فائدہ ہوگا۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں مقابلتاً سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی درآمد کا ایک چوتھائی تیل پر خرچ ہوجاتا ہے۔ قیمتیں کم ہونے سے اس سال پاکستان کو چار سے پانچ ارب ڈالر کا فائدہ ممکن ہے۔ پاکستان کی منی سی معیشت کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ جس سے اگر صحیح طور پر فائدہ اٹھایا گیا تو ہماری گرتی ہوئی معیشت سنبھل سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر ازسر نو بات چیت ہوسکتی ہے۔ ان شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے جو وعدے کیے تھے ان کا ایفا ممکن ہے۔ یہ چار پانچ ارب ڈالر عوام کی فلاح بہبود پر خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمت کم کی جاسکتی ہے۔ ٹیکس کم کیے جاسکتے ہیں وغیر ہ وغیرہ۔
کورونا کی وبا سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہ تیمارداری کی روایات اور محبت کے، دلداری کے تقاضے ہیں جنہیں نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔ آدمی بیمار ہو تو جی چاہتا ہے کوئی حال پو چھنے آئے، محبت کرے، جلدی اچھا ہونے کا کہے، پرنم آنکھوں اور لرزیدہ لہجے سے پریشان کرے، اپنے ہاتھوں سے سہارا دے، کھلائے، پلائے، خیال رکھے۔ کورونا نے محبت کرنے والوں کو محبت کے لمس سے دور کردیا ہے۔ دور دور سے محبت کی چنگاریوں کو بس محسوس کیا جاسکتا ہے۔ محبت کے کرسٹل دلوں میں جگمگ کرتے دیکھے جاسکتے ہیں انہیں چھوا نہیں جاسکتا، پیار نہیں کیا جاسکتا۔ انگلیوں کی لرزش سے ہونٹ نہیں چھوئے جاسکتے، سانسوں کی گرمی محسوس نہیں کی جاسکتی۔ آخری گھڑیوں میں یہ یقین نہیں دلایا جاسکتا کہ تم کبھی نہیں مرو گے۔
کورونا نے زندگی کو ساکت کردیا ہے۔ آبادیاں وبا کے کناروں پر ساکت کھڑی ہیں۔ نقابوں میں چھپے چہرے موت کے یقینی ہونے کا احساس پیدا کررہے ہیں۔ ہاتھ نہ دھونا زندگی سے ہاتھ دھونے کے برابر ہوگیا ہے۔ زندگی کی جنونی مصروفیات، معمول کی پا بندیاں، محبت کے اتفاق کورونا نے سب کو ناپائیدار اور غیر یقینی بنادیا ہے۔
لیکن صاحبو محبت وہ مطلق العنان حکمران ہے جو کچھ بھی کرسکتی ہے۔ چین کے ہائی تنگ کی بیوی کورونا کا شکار ہوئی تو اس نے احتیاطوں کی آڑ میں دل کے دروازے بند نہیں کیے۔ محبت نے ان دروازوں کو مزید کشادہ کردیا۔ وہ بڑی محبت سے بیوی کے لیے صحت بخش کھانا بناتا اور کمرے کے باہر رکھ دیتا۔ اس بے بسی میں وہ کھانے میں محبت کی ایسی خوشبو شامل کرنا نہ بھولتا جو اس کی بیوی کو احساس دلاتی رہتی تھی کہ یہ کھانا محبت نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ بیوی کے کمرے میں جاتے وقت گو وہ سر سے پیر تک خود کو ڈھانپے رکھتا لیکن اس کے جسم کا ہر رعشہ یہ پکار رہا ہوتا تھا کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ محبت حسرتوں سے دستبردار نہیں ہوئی ہے۔ فیس ماسک ہر وقت اس کے چہرے پر ہوتا ہے پھر بھی وہ دور دور سے بیوی سے باتیں کرتا رہتا ہے ایسی باتیں جن کا لطف محسوس کیا جاسکتا ہے چکھا جاسکتا ہے۔ گھر کے کام نمٹاتا، بیوی کے کمرے کی صفائی کرتا وہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ کورونا کے دنوں میں بھی محبت محبوب کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔ وبا کے دنوںمیں کہے گئے شاعر کے اس خیال کو ہائی تنگ نے غلط ثابت کردیا ہے کہ:
پہلے تو ترک تعلق کی وبا پھیلے گی
پھر محبت کا بھی انکار کیا جائے گا