گندم کے نرخ میں 100 روپے فی اضافہ مذاق ہے ، علی گورایہ

1258

 

فیصل آباد (وقائع نگار خصوصی) کسان بورڈ کے ضلعی صدر علی احمد گورایہ نے گندم کی سرکاری قیمت مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ سال بعد گندم کی سرکاری قیمت میں محض 100 روپے فی من اضافہ کسانوں کے ساتھ مذاق ہے۔ حالیہ بارشوں، شدید ترین ژالہ باری نے گندم کی فصل کو تباہ کردیا ہے جبکہ دوسری جانب زرعی مداخل کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ہمارے کسان کو 1400 روپے پر ٹالا جا رہا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دنیا بھر میں 1990ء سے بھی کم کی سطح پر آگئی ہیں لیکن لوٹ مار میں مصروف حکمران طبقہ کسانوں اور عام آدمی کو ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ ڈیزل کی قیمت میں آئے روز اضافے نے بھی کسانوںکو معاشی طور پر تباہ کردیا ہے، حالیہ بارشوں اور ژالہ باری کے باعث گندم کی فصل کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، جس کے باعث چھوٹے بڑے تمام کاشتکار انہیں پریشانی کا شکار ہیں، جس کے لیے حکومتی سطح پر ان کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے لیکن حکمران طبقہ کسانوں سے مذاق پر مذاق کررہا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں کسانوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں، پاکستان میں حکومت ہی کسان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ زراعت جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کاشتکار برادری کو کنگال اور زراعت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی تمام انڈسٹری ایگرو بیسڈ ہے اگر زراعت کو ہی تباہ کردیا گیا تو ملک میں قحط سالی اور انڈسٹری تباہ ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی اجناس کی قیمتیں ڈالر کی قیمت بڑھنے کے تناسب سے نہ بڑھنے کی وجہ سے کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں مل رہا ہے، اوپر سے زرعی مداخل مہنگے ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے، جس نے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مارکیٹ میں جعلی زرعی ادویات، کھاد اور بیج کی بھرمار ہے جس پر کنٹرول کرنے میں حکومتی ادارے مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ ضلعی انتظامی مشینری زراعت سے وابستہ افراد کے مسائل حل کرنے کے بجائے فوٹو سیشن کروانے میں مصروف ہے، منڈیوں میں آڑھتی کسانوں کو لوٹ رہے ہیں، تبدیلی حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مارکیٹ کمیٹیوں کو معطل کیا ہوا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بلوں میں FPA اور QTA نامی نام نہاد ٹیکسوں کو واپس لے اور الیکشن میں اپنے کیے ہوئے وعدے کے مطابق زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی کا ریٹ 4 روپے فی یونٹ مقرر کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گندم کا ریٹ 1600 روپے فی من مقرر کیا جائے۔ زرعی مداخل کھاد، زرعی ادویات پر عائد GST کو واپس لیا جائے۔ ملک میں زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے زراعت پیشہ افراد کو ریلیف دیا جائے۔ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا، حکومت فوری طور پر کسان دوست زرعی پالیسی بنائے اور پارلیمنٹ میں لے کر آئے، زرعی اجناس کی قیمتوں کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے۔