جاوید الرحمن ترابی
بھارتی فوج نے کشمیر یوں پر مظالم کی انتہا کردی ہے، بارہ مولا میں فائرنگ سے ایک اور کشمیری نوجوان شہید ہوگیا، شہید وانی کا قافلہ بڑھ رہا ہے‘ مقبوضہ وادی کے لاک ڈاؤن کو 223روز ہوگئے، نماز جمعہ پر بھی پابندی لگادی گئی۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا 223 واں روز ہے، وادی میں اسکول، کالجز اور تجارتی مراکز بند ہیں، مقبوضہ وادی میں نظام زندگی پوری طرح مفلوج ہوچکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی اور نہتے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے، کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بارہ مولا میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے خوبرو کشمیری نوجوان آزادی مانگتے مانگتے شہید ہوگیا ہے، نوجوان کو ناکہ بندی اور سرچ آپریشن کے دوران بہیمانہ تشدد کرکے شہید کیا گیا، اسی ہفتے دو دن میں دو شہید‘ اور رواں ہفتے کشمیری نوجوانوں کی تعداد 3ہوگئی ہے۔
بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کو نماز جمعہ ادا نہیں کرنے دی گئی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بلیک آؤٹ بھی جاری ہے۔ سید علی گیلانی کے ضلع بارہ مولا میں بھارتی فورسز نے کشمیری نوجوان شہیدکردیا تھا، بائیس سالہ کشمیری نوجوان کو نام نہادآپریشن کے دوران نشانہ بنایا گیا جبکہ قابض فورسز نے بارہ ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو گرفتار کررکھا ہے۔ وادی میں مسلسل کرفیو کے نفاذ سے نظام زندگی مفلوج ہے کشمیری گھروں میں محصور ہیں، کرفیو اور پابندیوں کے باعث اب تک مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ خیال رہے رکن برطانوی پارلیمنٹ ہیلری بین نے ڈیبی ابراہمز سے بھارت میں ہونے والے سلوک کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر میں صورتحال بہت خوفناک ہے، مسئلہ کشمیر بغیر بات چیت کے حل نہیں ہوسکتا۔
مودی حکومت کی طرف سے شہریت قانون کے نفاذ کے بعد بھارت بھر میں مظاہروں اور دِلّی میں ہونے والے بدترین نسلی فسادات نے پوری دُنیا کو چونکا دیا ہے۔ دُنیا کے بڑے ممالک میں مظاہرے ہوئے اور بھارت میں متعدد تنظیموں کی طرف سے اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا گیا۔ اب تازہ اطلاع یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دِلّی میں ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مائیکل بیچلیٹ نے بھی عدالت عظمیٰ میں دائر درخواستوں کے ساتھ فریق بننے کی درخواست دے دی، اس پر بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی اور اس کی طرف سے یہ معاملہ حکومت کا داخلی مسئلہ قرار دے کر ہائی کمشنر کے اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔ ہائی کمیشن کا کہنا کہ یہ قانون نسلی منافرت پر مبنی ہے کہ بھارت کے تین ہمسایہ ممالک سے آنے والے شہریوں کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ شرط عائد کر دی گئی کہ وہ مسلمان نہ ہوں، حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کے مطابق یہ بدترین قانون ہے جو نسلی منافرت پر مبنی ہے، بھارتی عدالت عظمیٰ نے اس قانون کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو ساتھ ہی سننے کا فیصلہ کیا ہے۔
دِلّی میں ہونے والے نسلی فسادات نے مسلمانوں کے مستقبل کو مخدوش بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا اور کمشنر کا اقدام درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عظمیٰ سے بھی ریلیف ملے گا کہ بھارتی حکومت کا موقف پارلیمنٹ کی بالادستی ہے اور کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور ہوا قانون مسترد نہیں کیا جا سکتا، بلاشبہ بھارت پر انتہا پسند مسلط ہو چکے ہیں۔ اللہ ہی انسانوں خصوصاً مسلمانوں اور اقلیتوں کی حفاظت کرے۔