امریکی مرغیوں کی ڈربے میں واپسی(پہلی قسط)

444

11ستمبر 2001 کے ڈھائی ماہ بعد دنیا کے طاقتور ترین ملک نے دنیا کے غریب اور پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک افغانستان پر کروز میزائل، ڈیزی کٹر اور کلسٹر بموں کی بارش کردی۔ ستم رسیدہ اور محروم قوموں کو امریکا جس طرح نگلتا جارہا تھا اس کے بعد کس کے تصور میں تھا کہ امریکا افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگا۔ طالبان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر باعزت انخلا کا راستہ تلاش کرے گا اس خوف کے ساتھ کہ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اسے ذلت آمیز طریقے سے نکلنا ہوگا۔ طالبان کی خوبی یہ رہی کہ وہ امریکا سے میدان میں مغلوب ہوئے اور نہ فکری محاذ پر۔ وہ جو امریکی افکار، طاقت اور حاکمیت کو اس طرح قبول کرتے ہیں کہ رخ حیات کی ہر جہت کو امریکا سے منسوب کرتے ہیں کب تصور کرسکتے تھے کہ اللہ کا یہ وعدہ کہ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ کی تعبیر اس صورت سامنے آئے گی کہ طالبان فاتح اور امریکا شکست خوردہ ہو گا۔ یہ جہاد کی طاقت تھی۔ جہاد ایک بار پھر فیصلہ کن طاقت بن کر سامنے آیا جس نے امریکیوں کو احساس زیاں میں مبتلا کردیا۔ بی بی سی نے فوربز میگزین سے اقتباس نقل کرتے ہوئے 9جنوری 2016 کو کہا تھا ’’افغانستان میں جنگ کی امریکا کو جو قیمت چکانی پڑی وہ 1کھرب 70ارب ڈالر ہے اور 2400 امریکی فوجیوں کی موت، دسیوں ہزاروں افراد کا زخمی اور مستقل معذور ہونا اس مالی نقصان کے علاوہ ہے اور اس مالی اور جانی نقصان کے باوجود امریکا (طالبان) تحریک کو ختم کرنے میں ناکام ہوا ہے‘‘۔ یہ وہ فکر اور معاشی نقصان کا ردعمل تھا جس کے بعد امریکا کے پاس افغانستان کے سیاسی حل کی طرف پیش رفت کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
جنگ کے میدان میں فتح یاب افغان مجاہدین کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انخلا کی باعزت صورت کو ممکن بنانے کے لیے امریکا نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔ سب سے پہلے امریکا نے ان طالبان رہنمائوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جو مذاکرات کے مخالف تھے۔ مئی 2016 میں ملا منصور اختر کو مذاکرات مسترد کرنے کی وجہ سے ڈرون حملے میں شہید کردیا گیا۔ پینٹا گون نے انہیں امن اور طالبان وحکومت کے درمیان مفاہمت کے لیے رکاوٹ قرار دیا تھا (دنیا الوطن 22مئی 2016)۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی اسی حکمت عملی کو جاری رکھا۔ 22جولائی 2018 کو افغان خصوصی افواج کی مدد کے لیے کپیسہ، تجب ڈسٹرکٹ میں ایک امریکی حملے میں دو طالبان کما نڈر ماردیے گئے (سپتنک روسی خبر رساں ایجنسی 25-5-2018) اسی برس دسمبر میں ایک اور حملے میں طالبان کمانڈر ملا منان شہید کردیے گئے۔ افغانستان میں امریکی ترجمان کرنل ڈیوڈبٹلر نے اس موقع پر کہا ’’ہم کل کیے گئے ایک امریکی حملے کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں طالبان کمانڈر ملا منان مارے گئے۔ ہم ایک سیاسی حل کی طرف جارہے ہیں۔ (سی این این عربی 2-12-2018)‘‘۔
ایران کو امریکا دشمن ریاست تصور کیا جاتا ہے لیکن اس نے بھی امریکا کے افغانستان سے باعزت طریقے سے نکلنے میں کردار ادا کیا۔ دسمبر 2018 کے اواخر میں ایران کی طرف سے کہا گیا ’’افغان طالبان کے وفد نے تہران میں ایرانی عہدیداروں کے ساتھ اتوار کو مذاکرات کیے کیونکہ اسلامی جمہوریہ دیگر اسلامی گروہوں کے اثر کو ختم کرنے کے لیے اپنے ہمسایہ ملک میں امن مذاکرات کو فروغ دینا چا ہتی ہے‘‘۔ جہاں تک خلیجی ممالک قطر، عرب امارات اور سعودی عرب کا تعلق ہے تو انہوں نے مذاکرات کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قطر نے دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولا۔ یہ طالبان سے ہمدردی یا انہیں تسلیم کرنے کی بنا پر نہیں تھا۔ قطر نے اعلانیہ کہا تھاکہ یہ دفتر امریکا کے ساتھ مل کر کھولا گیا ہے تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جاسکیں۔ قطر کو امید تھی کہ اس خدمت کے عوض ٹرمپ انتظامیہ اس کے لیے سعودی خطرے کو کم کردے گی۔ متحدہ عرب امارات مذاکرات کو دبئی میں لانا چاہتا تھا۔ سعودی عرب مذاکرات کا انعقاد جدہ میں چا ہتا تھا۔ رائٹر نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر ایک طالبان کمانڈر کا بیان نقل کیا تھا کہ ’’سعودی ہمیں غیر ضروری طور پر جنگ بندی کے لیے مجبور کررہے ہیں۔ (روسی اخبار سپتنک 14-01-2019)‘‘۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان افغان مجاہدین کے لیے محور کی حیثیت رکھتا تھا۔ صدر بش جونیر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان اس کا قریب ترین اتحادی بن گیا۔ پاکستان نے نہ صرف طالبان کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا بلکہ امریکا کے قریب ترین حلیف کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی سرزمین افغانستان پر حملوں کے لیے پیش کردی۔ امریکا کو طالبان سے مذاکرات کی ضرورت پڑی تو پاکستان طالبان سے ازسر نو روابط بڑھانے میں مصروف ہوگیا۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد عمران خان نے ایسے بیانات دیے جن میں طالبان سے قربت اور ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور ایسے حالات پیدا کیے کہ طالبان ان پر بھروسا کرسکیں۔ وزیراعظم عمران خان نے دسمبر 2018 میں کہا تھا ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان امن معاملے پر مدد مانگی ہے‘‘۔ ایک بیان میں عمران خان نے واضح کیا ’’امریکی صدر کا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں امریکا نے پاکستان سے افغان امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو کہا ہے اور یہ کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کی جائے‘‘۔ اور پھر دو دن بعد امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تاکہ مذاکرات کے امریکی منصوبے میں ’’اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لیے‘‘ پاکستان کی کوششوں کا تعین کیا جاسکے۔ اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایسے بیانات آنا شروع ہوگئے کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کو آگے لے جانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
ان تفصیلات سے شکست خوردہ امریکی ذہنیت کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ پٹتا ہوا شخص ہی بھاگنے کے لیے اپنے دوستوں کو مدد کے لیے پکارتا ہے۔ امریکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب جوتا دوسرے کے پیر میں ہو اور وہ ننگے پائوں تب وہ چلنے کے لیے باعزت راستہ اختیار کرتا ہے۔ امریکی دشمن کی مکمل شکست ہی نہیں اس کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں۔ باعزت راستہ، باعزت انخلا یا مذاکرات مغلوب سے امریکا کی روایت نہیں۔ مہذب قوانین، احترام انسانیت اور وہ بھی دشمن کے باب میں امریکیوں کے ہاں ان تصورات کا کہیں وجود نہیں۔ دوحہ معاہدہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکا اپنے آپ کو طالبان مجاہدین کی قوت جہاد سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس سال کے لیے جو فوجی بجٹ پیش کیا ہے وہ 7سو 16ارب امریکی ڈالر ہے۔ اتنا عظیم فوجی بجٹ، انسانی تاریخ کی خوفناک ترین جنگی مشینری رکھنے والی طاقت معمولی اسلحے سے لیس افغان مجاہدین کو اپنے ہم پلہ قرار دیتے ہوئے ایک ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے بے قرار تھی، ان سے معاہدہ کر رہی ہے۔ یہ کس کی شکست ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بہر صورت آخری فوجی کی واپسی تک ہوکر رہے گا۔ یہ کامیابی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد سے ممکن ہوئی جو سب سے بڑا اور ناقابل تسخیر ہے۔ معاہدے کی شقوں میں امریکیوں نے اپنی عادت کے مطابق چالاکی اور مکاری سے کام لیا ہے اس پر ان شا اللہ اگلی قسط میں بات ہوگی لیکن ان تمام چالبازیوں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکی اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ایسے ہی بے تاب ہیں جیسے مرغیوں کو ڈربے میں لانے کے لیے کبھی اس طرف بھاگنا پڑتا ہے کبھی اُس طرف۔ اس قسط میں ہم نے اسی بھاگ دوڑ کی نشاندہی کی ہے۔
(جاری ہے)