آزادیٔ صحافت؟ کون سی آزادیٔ صحافت؟

694

جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو 54 کنال اراضی کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس خبر کو ہمارے اہم اخبارات نے جس طرح پیش کیا ہے اس کا مطالعہ ہمیں اپنی صحافت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔
روزنامہ جنگ کراچی نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو ’’آزادیٔ صحافت‘‘ پر حملہ قرار دیا ہے۔ جنگ کراچی نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو چھ کالمی شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ جنگ کی شہ سرخی اور اہم ذیلی سرخیاں یہ ہیں۔
(1) آزادیٔ صحافت پر حملہ۔ ایڈیٹر انچیف جنگ جیو گرفتار
(2) گرفتاری کے لیے عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی‘ میر شکیل
(3) پراپرٹی 34 سال پہلے پرائیویٹ لوگوں سے خریدی گئی
(4) قانون کی حکمرانی پر یقین ہے۔ دبائو میں نہیں آئیں گے‘ نیب
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 13 مارچ 2020)
روزنامہ ایکسپریس کراچی نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو چار کالم کی سرخی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایکسپریس کی اہم سرخیاں یہ ہیں۔
(1) جنگ و جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن 54 کنال اراضی کے اسکینڈل میں گرفتار
(2) نیب لاہور نے دوسری پیشی پر بلایا۔ 26 سوالات پوچھے گئے۔ جواب کے بجائے تلخی پر اُتر آئے۔
(3) 1986ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف سے جوہر ٹائون میں غیر قانونی طور پر 54 پلاٹ لیے۔
(4) مکمل ریکارڈ منگوانے کا فیصلہ
(روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 13 مارچ 2020)
روزنامہ دنیا کراچی نے بھی میر شکیل کی گرفتاری کو چار کالمی سرخی کے ساتھ پیش کیا۔ روزنامہ دنیا کی اہم سرخیاں یہ ہیں۔
(1) نیب نے اراضی کیس میں میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرلیا
(2) نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ تین مختلف پلاٹوں پر خصوصی استثنا دے کر غیر قانونی طور پر 55 کنال 5 مرلے الاٹ کیے‘ نیب
(3) جیو اور جنگ کے مالک سے 26 سوالات پوچھے گئے، دو گھنٹے تفتیش کے بعد گرفتاری
(روزنامہ دنیا کراچی۔ 13 مارچ 2020)
روزنامہ 92 نیوز کراچی نے میر شکیل کی گرفتاری کو ’’معمول کی خبر‘‘ بنا کر صرف دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع کیا، 92 نیوز کی اہم سرخیاں یہ ہیں۔
(1) نیب نے ایڈیٹر انچیف جنگ گروپ میر شکیل الرحمن کو گرفتار کرلیا
(2) نواز شریف دور میں 54 کنال اراضی پر غیر قانونی رعایت کا الزام
(3) بیرون ملک فرار کا امکان تھا‘ نیب
(4) نواز شریف کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے
روزنامہ جنگ کے بعد میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو سب سے زیادہ اہمیت روزنامہ جسارت نے دی۔ جسارت نے 5 کالم کی شہ سرخی کے ساتھ خبر کو شائع کیا۔ جسارت کی اہم سرخیاں یہ تھیں۔
(1) جنگ و جیو کے مالک میر شکیل الرحمن گرفتار
(2) نیب کی حیران کن کارروائی‘ 34 سال پرانے مقدمے میں طلبی
(3) میر شکیل نے تمام اراضی قانونی طور پر لیں، اس کے باوجود جھوٹے اور من گھڑت کیس میں پکڑ لیا
(4) قانونی طریقے سے سب بے نقاب کریں گے
(روزنامہ جسارت کراچی۔ 13 مارچ 2020)
اخبارات کی ان سرخیوں میں ایک دو نہیں کئی ’’کہانیاں‘‘ موجود ہیں مگر ہم فی الحال ان سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کہانیوں کو سمجھنے کا بوجھ اپنے قارئین پر ڈالتے ہیں۔ سردست ہماری دلچسپی اس بات سے ہے کہ روزنامہ جنگ نے میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کو آزادیٔ صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ اس سے یہ ’’تاثر‘‘ پیدا ہوا ہے کہ میر شکیل الرحمن اور جنگ و جیو آزادیٔ اظہار کے بڑے علمبردار بھی ہیں اور انہوں نے اپنی تاریخ میں آزادیٔ اظہار ’’برت‘‘ کر بھی دکھائی ہے۔
ہم نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کے آخری پانچ سال شعور کی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہمیں یاد نہیں کہ جنگ نے کبھی ایک بار بھی جنرل ضیا الحق کے خلاف آزادیٔ اظہار کے ہتھیار کو آزمایا ہو۔ حالاں کہ جنرل ضیا الحق کی آمریت کے دس سال آزادیٔ اظہار کی پامالی کے سال تھے۔ وہ اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو یا تو خرید لیتے تھے یا دبا دیتے تھے۔ دس سال چھوٹی سی مدت نہیں ہوتی، جنگ آزادیٔ اظہار کا علمبردار ہوتا تو دس برسوں میں سیکڑوں بار جنرل ضیا الحق کے خلاف آزادیٔ اظہار کو بروئے کار لاتا۔ لیکن اس سلسلے میں صرف جنگ کو مطعون کرنا ٹھیک نہیں پاکستان کی پوری صحافت دس سال تک جنرل ضیا کے حکم پر ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھے رہی۔
ایم کیو ایم کی فسطائیت کا زمانہ جنرل ضیا الحق کی آمریت سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ ایم کیو ایم کم و بیش تین دہائیوں تک شہری سندھ پر حکومت کرتی رہی۔ اس طویل عرصے میں بھی ہم نے کبھی روزنامہ جنگ اور جیو کو آزادیٔ اظہار کی تلوار سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایک آدھ بار جنگ اور ڈان میں ایم کیو ایم کے خلاف کچھ چھپا بھی مگر جنگ اور ڈان کے مالکان معافی تلافی کے لیے نائن زیرو پہنچ گئے۔ یہاں بھی صرف جنگ اور ڈان کو مطعون کرنا ٹھیک نہیں۔ پاکستان اور بالخصوص کراچی کی صحافت ایم کیو ایم کے غلبے کے 30 سال میں اندھی، بہری اور گونگی صحافت بنی رہی۔ البتہ روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر کے خلاف صف آرا رہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن کے لیے جبر کی مزاحمت اور آزادیٔ اظہار اہم تھی انہوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کی آندھی میں بھی ’’مزاحمت‘‘ اور آزادیٔ اظہار کا ’’چراغ‘‘ جلا کر دکھایا۔
بلاشبہ جنگ اور جیو نے جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف آزادیٔ اظہار کا مظاہرہ کیا۔ جنگ اور جیو نے جنرل پرویز کے خلاف وکلا کی تحریک کا ساتھ دیا۔ مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ وکلا تحریک کی پشت پر جنرل کیانی کھڑے تھے۔ جنرل کیانی نہ ہوتے تو نہ جسٹس افتخار چودھری کا مشہورِ زمانہ ’’انکار‘‘ ہوتا، نہ کوئی وکلا کی تحریک ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جنگ اور جیو نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے دھڑے کی سرپرستی میں مزاحمت کی اور آزادیٔ اظہار کو استعمال کیا۔ کیا یہ حقیقی آزادیٔ اظہار کی حقیقی توقیر ہے؟۔
یہ خیال عام ہے کہ جبر صرف ’’سیاسی‘‘ ہوتا ہے۔ جبر صرف ’’ریاستی‘‘ ہوتا ہے۔ جبر صرف ’’عسکری‘‘ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جبر ’’معاشی مفادات‘‘ کا بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ آزادیٔ اظہار کا نعرہ بلند کریں ان کے فکر و عمل سے جبر کی ہر صورت کے خلاف مزاحمت اور آزادیٔ اظہار کی شہادت ملنی چاہیے۔ بدقسمتی سے جنگ اور جیو اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اس کی ایک بہت ہی بڑی، ٹھوس اور ناقابل تردید مثال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر غیر قانونی طریقے سے سیکڑوں ایکڑ زمین ہتھیانے کے الزام میں ملک ریاض پر ’’460 ارب‘‘ روپے کا جرمانہ کیا مگر اس جرمانے کی خبر ہی ’’جنگ میں‘‘ شائع نہ ہوئی۔ یہ ممکن ہے کہ جنگ یہ خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع نہ کرتا۔ ممکن تھا کہ جنگ یہ خبر صفحہ اوّل پر ہی شائع نہ کرتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ جنگ یہ خبر اندر کے کسی صفحے پر شائع کرتا مگر جنگ نے سرے سے یہ خبر شائع نہ کی۔ حالاں کہ جنگ پر اس خبر کو شائع نہ کرنے کے لیے نہ حکومت کا جبر تھا، نہ اسٹیبلشمنٹ کا جبر تھا، نہ کسی ایجنسی کا جبر تھا، نہ کسی سیاسی جماعت کا جبر تھا۔ جنگ پر کوئی جبر تھا تو اس کے مالی اور معاشی مفادات کا۔ بدقسمتی سے جنگ نے اس جبر کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس طرح جنگ نے خود اپنی آزاد مرضی سے آزادیٔ صحافت کا گلہ گھونٹ دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ خود آزادیٔ اظہار کا گلہ گھونٹنے والے ہوں وہ کس منہ سے آزادیٔ صحافت زندہ باد کا نعرہ لگا سکتے ہیں؟
لیکن اس سلسلے میں بھی صرف جنگ کو مطعون کرنا ٹھیک نہیں ملک ریاض پر جرمانے کی خبر روزنامہ جسارت اور روزنامہ ڈان کراچی کے سوا کسی نے شائع نہیں کی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری ’’آزادیٔ صحافت‘‘ کتنی ’’آزاد‘‘ ہے اور اسے ’’آزادیٔ صحافت‘‘ کتنی ’’عزیز‘‘ ہے۔
جنگ اور جیو نے عمران خان کی ’’جنسی زندگی‘‘ تک کو نہیں بخشا۔ بہت اچھا کیا۔ مگر جنگ اور جیو نے آج تک کبھی میاں نواز شریف کے ’’معاشقوں‘‘ کو کیوں خبر اور گفتگو کا موضوع نہیں بنایا۔ ایک جگہ آزادیٔ اظہار اور دوسری جگہ پابندیٔ اظہار کیا یہی جنگ اور جیو کی آزادیٔ اظہار ہے؟ چودھری شجاعت نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تو شہباز شریف قرآن اُٹھا لائے اور قرآن کو ضامن بنا کر کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ چودھری شجاعت کے بقول بعد میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے معاہدے کی کسی شق پر بھی عمل نہ کیا۔ قرآن کو ضامن بنا کر جھوٹ بولنے کا کام کوئی لعنتی مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ صحافت کے اعتبار سے یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ کئی روز تک جنگ اور جیو کی شہ سرخی ہوسکتی ہے مگر ہم نے اس بات کو کبھی جنگ میں ایک کالم کی خبر بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر بات چیت کرتے رہے ہیں۔ یہ اتنی بڑی خبر ہے کہ جنگ اور جیو میں اس سے ایک ہفتے تک شہ سرخیاں تخلیق ہوسکتی ہیں مگر جنگ اور جیو کو آج تک شریفوں کی اس ’’غداری‘‘ کی بھی اطلاع نہیں ہوسکی ہے۔ کیا یہی آزادیٔ اظہار ہے؟ کیا یہی آزادیٔ اظہار کا عشق ہے؟ کیا یہی آزادیٔ اظہار کی پاسداری ہے؟۔
جو ذرائع ابلاغ پلاٹوں کے اسکینڈل کے مقدمے کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی میر شکیل الرحمن کو ’’مجرم‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں وہ صحافیانہ اخلاقیات کو روند رہے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ میرشکیل پر لگنے والے الزام کے مقدمے کا فیصلہ آنے سے قبل انہیں ’’معصوم‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں وہ بھی صحافیانہ اخلاق کو روند رہے ہیں۔