رضی الاسلام ندوی
زمانہ قدیم میں یونانی تہذیب اور رومی تہذیب میں عورتوں کو انتہائی ذلت والی حیثیت دی گئی تھی۔ ان کی اس حالت زار کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور میں یہ جملہ زبان زد عام و خاص تھا کہ ’’آگ سے جل جانے، سانپ سے ڈسے جانے کا علاج ممکن ہے، لیکن عورت کے شر کا مداوا ممکن نہیں۔ عورت تمام دنیاوی آفات کی جڑ ہے‘‘۔ رومن تہذیب میں عورتوں کو تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ ان تہذیبوں کا حال ہے جن کو اپنے زمانے میں اعلیٰ ترین اور ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ یہودیت کو الہامی مذہب کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن اس کی مذہبی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ آدم کو جنت سے نکلوانے والی ایک عورت (حوا) تھی۔ اس نے آدم کو بہکایا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو دو سزائیں دیں: ایک تو یہ سزا دی کہ ہر مہینے وہ ایک خاص حالت سے گزرتی ہے اور دوسری سزا یہ کہ اس کو پوری زندگی کے لیے مردوں کا غلام بنا دیا گیا۔ اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرے۔ عیسائیت میں عورت کو شیطان کا دروازہ کہا جاتا ہے، اس کو اتنا منحوس و مبغوض سمجھا جاتا ہے کہ ایک شر یف، دین دار، پرہیزگار، متقی عیسائی کی آئیڈیل زندگی یہ ہے کہ وہ اس گندگی میں ملوث ہی نہ ہو۔ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ نکاح ہی نہ کرے۔ مندر جہ بالا دونوں تہذیبوں اور مذہبوں میں عورتوں کو ملکیت کا حق حاصل نہیں تھا۔ ان میں عورت کو خود ایک مال سمجھا جاتا ہے۔ ان کے یہاں عورت کو صرف مردوں کی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا آلہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپ، جو اپنی ترقی کے دعوے کرتا ہے، وہاں عیسائیت کے غلبے کے نتیجے میں اسی طرح کے تصورات عام تھے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یورپ میں انسانی حقوق بیداری مہم تین سو سال سے چل رہی ہے، لیکن اس طویل عرصے میں عورتوں کے حقوق کی طرف سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ عورت کو تعلیم کا حق، ملکیت کا حق اور دوسرے تمام معاشرتی، سماجی اور تہذیبی و تمدنی حقوق بیسویں صدی عیسوی میں جا کر حاصل ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اسے کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ ہندو مذہب میں عورتوں کو اتنا حقیر اور ذلیل بیان کیا گیا ہے کہ انسانی ذہن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ’منو سمرتی‘ ہندو مذہب کی ایک مشہور مذہبی کتاب ہے۔ اس میں جہاں ذات پات کے متعلق تفصیلی بیان ہے، وہیں عورتوں کے متعلق بھی بیانات موجود ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ: ’’آگ، پانی سانپ اور عورت، یہ چار چیزیں ہلاکت والی ہیں۔ انسانوں کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جھوٹ، بے عقلی، فریب، حماقت، لالچ، ناپاکی، بے رحمی، یہ عورتوں کی خصوصیات ہیں۔ عورت کا کام شوہر کی خدمت کرنا ہے، شوہر کے مرنے کے بعد اس کو جینے کا حق نہیں ہے‘‘۔ ان ریت رواجوں کا ایک طویل عرصے تک دور دورہ رہا۔ جو عورتیں اپنے شوہر کی چتا (میت) کے ساتھ جل مرتی تھیں، ان کے مندر قائم کیے جاتے تھے اور ان میں ان کی پوجا کی جاتی تھی۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال زمانۂ جاہلیت میں عربوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی تہذیب ہو، مذہب ہو، حتی کہ جدید ترین تہذیب، جو اپنے بارے میں بلند باگ دعوے کرتی ہے، اس میں عورتوں کو کبھی مردوں کے مساوی حقوق عطا نہیں کیے گئے۔ عربوں کے کئی قبیلے ایسے تھے جو لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ اس زمانے میں الٹرا ساؤنڈ اور اس طرح کے دیگر آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے، جس سے معلوم ہو سکتا ہو کہ حمل میں جس کی پرورش ہو رہی ہے وہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ وضع حمل سے پہلے گڑھا کھود لیا جاتا تھا۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے فوراً زمین میں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ریت کی بڑی سی پوٹلی بنا کے رکھی جاتی تھی۔ لڑکی پیدا ہوتی تو اس کے منہ پر وہ پوٹلی رکھ دی جاتی تھی، تاکہ اس کا دم گھٹ جائے۔ عرب کے صحرا کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش پر انھیں اس میں پھینک دیا جاتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس سے متعلق بڑے دردناک واقعات ملتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ عرب میں بھی عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں حاصل تھی۔ وراثت میں ان کو حق نہیں دیا جاتا تھا۔