والدین کی اطاعت

312

حافظ عبد الرحمن سلفی

اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بعد انسانی مخلوقات میں والدین اور ماں باپ کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ یہی دونوں تخلیق انسانی کی ظاہری علت مادی ہیں، لیکن ان میں بھی ماں کو باپ سے برتری حاصل ہے ۔ کیونکہ ماں نے اپنے بچے کو اپنا خون پلا پلا کر بڑھایا اور نو مہینے تک اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر اسے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا۔ پھر اس نوپید مضغۂ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی ایک کرکے پلایا اور اس کی پرورش میں اپنی ہر راحت قربان، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خوشی نثار کردی۔ ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے؟
اسی لیے شریعت محمدیؐ نے اپنی تعلیمات میں جو بلند سے بلند مرتبہ و مقام اس کو عطا کیا ہے۔ یقیناً وہ اس کی سزا وار ہے۔ البتہ ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی بچے کی توحید وتکوین میں شریک ہے۔ وہ باپ ہے اور اس میں شک نہیں کہ انسان کی نشو ونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی اور مالی کاوشیں شامل ہوتی ہیں اس لیے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے جوانی اور قوت وطاقت کو پہنچے تو اس پر فرض ہے کہ اپنے ماں باپ سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت و فرمانبرداری کی صورت میں ادا کرے۔ چنانچہ اسلام نے نہ صرف گزشتہ صحیفوں کی طرح ان کی عزت کرنے اور ان سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا کیا بلکہ ان کی خدمت، اطاعت و فرمانبرداری، ا ن کی امداد، ان کی دلجوئی وغیرہ ہر چیز فرض قرار دی۔ بلکہ یہاںتک تاکید کی کہ ان کی کسی ناگوار بات پر اُف تک نہ کرو بلکہ ان کے سامنے ادب سے جھکے رہو۔ ان کی دعائوں کو اپنے حق میں قبول سمجھو۔ والدین کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ انہی کی خوشنودی سے اللہ کی خوشنودی ہے جیساکہ رحمت کائناتؐ کا ارشاد گرامی ہے:
اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی)
ایک دوسرے مقام پر والدین کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:
سیدنا ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہؐ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: تیری جنت اور دوزخ وہی دونوں ہیں۔ (ابن ماجہ)
یعنی ماں باپ کا اولاد پر بہت حق ہے۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا اور دکھ نہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا دخول بہشت کا ذریعہ ہے۔ تو انہیں تکلیف پہنچانا، رنج و غم دینا اور نافرمانی و بدسلوکی کرنا، دوزخ میں جانے کا موجب ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تیری جنت و دوزخ وہی دونوں ہیں۔ گویا انسان انہیں راضی رکھ کر رب کی رضا حاصل کر سکتا ہے اور جنت کا حصول اس کا مقدر ٹھہرے گا۔ جبکہ انہیں ناراض کرکے انسان رب کی ناراضگی مول لے لیتا ہے، جس کے نتیجے میں جہنم کا حقدار بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ والدین کی عزت و وقار کو اس قدر ملحوظ خاطر رکھتا ہے کہ انہیں جنت وجہنم کے حصول کا معیار قرار دے دیا۔ البتہ ماں کو باپ پر حق فرمانبرداری کا زیادہ مستحق قرار دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ماں اپنی اولاد کے لیے باپ سے کہیں زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے اور مشقت اٹھاتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک شخص نے آکر نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں، تین مرتبہ آپؐ نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ اس نے پھر پوچھا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری، ترمذی)
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں رحمت کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مائوںکی نافرمانی تم پر حرام کر دی ہے۔ (بخاری)