چینیوں کے ہاتھوں کے بجائے قدموں کو دیکھیے

381

صدر پاکستان عارف علوی نے کورونا کے بھنور میں گھرے اور عالمی تنہائی کی طرف دھکیلے جانے کے عمل کا شکار عوامی جمہوریہ چین کا دو روزہ دورہ کیا۔ دونوں طرف مشکل حالات کا مل کر مقابلہ کرنے کے زبانی عہد وپیماں ہی نہیں ہوئے بلکہ تحریری یاداشتوں پر بھی دستخط ہوئے۔ چینی صدر جن شی پنگ اور عارف علوی کی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ حسب روایت مسئلہ کشمیر کی حقیقت کے اعتراف اور کشمیریوں کی حمایت سے مزین تھا۔ اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت پر زوردیا گیا تھا۔ اس مشترکہ اعلامیے پر بھارت کی بے چینی چھپی نہ رہ سکی اور بھارتی وزرات خارجہ نے اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کیا۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے پاک چین مشترکہ اعلامیے پر بھارت کے ردعمل کو بلاجواز کہہ کر مسترد کیا جبکہ سری نگر سے ایک حریت پسند راہنما شبیر ڈار نے اس اعلامیے کا زبردست خیر مقدم کیا۔ عارف علوی کا دورہ اور کئی معاہدات اور یاداشتوں پر دستخط مشترکہ اعلامیہ موجودہ حالات میں اپنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ عوامی چین اس وقت امریکا کی شدید مخاصمانہ روش کا بری طرح شکار ہے۔ یہ مخاصمت اب اخلاقی حدو قیود سے آزاد ہوتی جا رہی ہے۔ ہر محاذ پر دونوں طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔
امریکا افغانستان سے معاہدات، سمجھوتوں اور مصلحتوں کے گٹھڑیاں اُٹھائے واپسی کی راہ لے رہا ہے تو اس انداز کی رخصتی بھی دل پر لگا ایک داغ ہی ہے اور واپسی کے اس محفوظ اور نسبتاً باعزت راستے کو یقینی بنانے میں بھی چین کے ایک باعتماد دوست پاکستان کا کردار نمایاں ہے اور یہ وہی پاکستان ہے جسے افغانستان کی فتح کی سرتوڑ کوششوں کے دوران امریکا اور اس کے حلقہ اثر نے یا تو ’’اچھوت‘‘ بنا کر دور رکھا تھا یا ایک مجرم بنا کرکٹہرے میں لاکھڑا کیا تھا۔ وقت نے امریکا کو اس پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا۔ چین کا اقتصادی اُبھار اور ایک عالمی دیو بننے کی کوششیں بھی امریکا کے لیے مستقل بے چینی کا باعث ہیں۔ دنیا کی قیادت ایشیا کی طرف منتقل ہونے کا احساس مغرب کے لیے سوہانِ روح بن کر رہ گیا ہے۔ وقت کے اُلٹ پھیر کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اسے ناک اور انا کا مسئلہ بنانے کی سوچ کا یہ انداز موجودہ عالمی اور علاقائی مسائل کی بنیاد بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا میں قیادت اور سیادت کا عمل کوئی پہلی بار تبدیلی کا سامنا نہیں کر رہا۔ ہر دور کا اختتام ایک نئے دور کے آغاز پر ہونا تاریخی عمل اور فطرت کا اصول ہے۔ امریکا فطرت کے اصول کے آگے ’’اسپیڈ بریکر‘‘ باندھنے پر اپنی توانائیاں صرف کررہا ہے۔
کورونا وائرس کی اصل حقیقت سامنے آنے پر اگر اس میں بھی چین امریکا مخاصمت اور مسابقت کا پہلو نکل آیا تو یہ انسانیت کے لیے ایک شرمناک اور المناک ہوگا۔ امریکا کی طرف سے چینی وائرس کہہ کر اس مرض کے ساتھ چین کو نتھی کر دینا اپنے اندر پنہاں سیاسی مقاصد کو ظاہر کر رہا ہے۔ اس وائرس نے چین کی وسعت پزیر معیشت اور تجارت کو ایک مخصوص مدت کے لیے سہی اپنے خول میں واپس بند کر دیا ہے۔ چین امریکا بڑھتی ہوئی مخاصمت اب صحافت کے میدان تک پہنچ چکی ہے۔ کورونا بحران کے دوران غلط رپورٹنگ پر چین نے امریکا کے تین اہم صحافتی اداروں سے وابستہ صحافیوں کو ملک چھوڑنے اور بیورو آفسز ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ظاہر ہے یہ ادارے کورونا بحران کو مغرب میں کچھ اس انداز سے پیش کر رہے تھے جس سے چین کی ایک خوفناک عالمی شبیہ بن رہی تھی اور اس کا اثر چینی مصنوعات کی خرید ترک کرنے کے رجحان کی شکل میں ظاہر ہو رہا تھا۔ جواب میں امریکا نے بھی چینی صحافیوں کی تعداد محدود کرکے ایک سو تک لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس صورت حال میں نہ صرف عارف علوی کا دورہ چین بروقت قدم تھا بلکہ مشترکہ اعلامیہ کا اجرا بھی بہت سے حقائق کو ظاہر کر نے کا باعث بنا۔
بھارت کی چیخ وپکار بتا رہی ہے کہ تیر بالکل نشانے پر جا لگا ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات کا یہ پہلو خوش آئند ہے کہ کوئی تیسرا ملک خواہ کتنا ہی طاقتور ہو اس دیوار میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ یہ دوستی عالمی اور علاقائی موسموں کے اثرات سے آزاد رہتی ہے۔ اس دوستی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم چین کی مثالیں دیتے ہیں مگر چین سے ترقی کا گُر سیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران بالخصوص موجودہ وزیر اعظم عمران خان چین کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے کامیاب منصوبہ بندی کی تعریف اور اعتراف کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے مگر ہم نے کسی دور میں چین کو ترقی کا رول ماڈل نہیں بنایا۔ ہم چینیوں کے طرز عمل کے بجائے ان کے ہاتھوں اور جیبوں پر نظررکھنے کے عادی ہوگئے ہیں حالانکہ ہمیںان کے ہاتھوں کے بجائے ترقی کی سمت بڑھتے قدموں کو دیکھ کر اس کی تقلید کرنا چاہیے تھی۔ چین سے ہمیں نقد میں کیا ملتا ہے؟ یہ رویہ ہمارے مزاج اور نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ چین کے شہر ودیہات ہمارے سیکھنے اور تقلید کرنے کے لیے کھلے پڑے ہیں مگر مجال ہے کہ کچھ سیکھا جائے۔ چین نے کورونا کی وباء پر جس طرح قابو پایا ہے اس وقت وہ بھی ہمارے سیکھنے کا ایک میدان ہے۔ چین اس عفریت کو پچھاڑ چکا ہے اور اب یہ ہمارے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ مجال ہے کہ ہم چین سے اس عفریت کو پچھاڑنے کا فن سیکھ لیں اس وقت بھی ہمیں چین سے ماسک اور دوسری امدادی اشیاء کا انتظار ہے۔