چین میں تباہی پھیلانے کے بعد کورونا وائرس سے جن جن ملکوں کے باشندے متاثر ہورہے ہیں ان میں امریکی، یورپی ممالک، افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی شامل ہے۔ جہاں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق متاثرہ افراد کی تعداد 447 ہے اور ان میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں ہیں جو 241 ہیں لیکن جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اندازہ ہے کہ یہ تعداد بڑھ چکی ہوگی۔ ان متاثرہ افراد میں تقریباً تمام ہی وہ لوگ ہیں جو ایران سے براستہ تافتان پاکستان آرہے تھے اور وہ مناسب اسکریننگ اور قرنطینہ میں رکھے بغیر ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچ گئے لیکن اب ان لوگوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں میں بھی کورونا وائرس رپورٹ ہوا ہے۔ اس کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے سخت اقدامات کیے گئے ہیں تعلیمی ادارے تو پہلے ہی بند تھے۔ اب شاپنگ سینٹرز اور ریسٹورنٹس بند کردیے گئے ہیں، شادی ہال میں تقریبات معطل کردی گئی ہیں، سرکاری دفاتر کے ملازمین چھٹی پر ہیں، انٹر سٹی ٹرانسپورٹ روک دی گئی ہے، مذہبی اور سماجی اجتماعات منسوخ ہوگئے ہیں، نماز جمعہ کو بھی مختصر کرنے کا کہا جارہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کیے جارہے ہیں یا اُن کے بارے میں سوچا جارہا ہے اور یہ سب کچھ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
لیکن اس کا دوسرا اپہلو ہے کہ اس سے تمام معاشی سرگرمیاں، کاروبار، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ سب رک گیا ہے جس سے سب سے زیادہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے، خوانچہ یا کھوکھا لگانے والے یا نچلی سطح پر کام کرنے والے مزدور متاثر ہوں گے۔ اسکولوں کے سامنے پکوڑے سموسے بیچنے والے کے گھر چولہا کیسے جلے گا، شادی ہالوں کے باہر بچوں کے غبارے بیچنے والے کیا کریں گے، شاپنگ سینٹرز کے آگے پیچھے بنیان اور ازار بند فروخت کرنے والے کیسے اپنے بچوں کا پیٹ بھریں گے، جوڑیا بازار اور میریٹ روڈ پر آٹے اور چاول کی بوریاں لانے لے جانے والے مزدوروں کا کیا ہوگا، کالجوں کے باہر فرنچ فرائز اور برگر تیار کرنے والے شدید متاثر ہوں گے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) نے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں 5 ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی جو 2018ء میں 5.6 فی صد کے حساب سے آگے جارہا تھا 2019ء میں آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور حکومتی نااہلیوں کے باعث وہ شرح 3.5 فی صد رہ گئی اور کورونا وائرس کے وبا پھیلانے کے بعد اب یہ اندازہ ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار 2.5 فی صد رہ جائے گی۔ پہلے ہی دس سے بارہ لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں اب مزید کئی لاکھ افراد بے روزگار ہوجائیں گے۔
معاشی منفی اثرات کو کم کرنے اور کورونا وائرس سے بچائو کے اقدامات کو بہتر کرنے کے لیے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 58 کروڑ ڈالر اور 80 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اور معاشی صورت حال کی بہتری کے لیے مزید ایک ارب 60 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایسے مواقعے پر آنے والی امداد خوردبرد کرلی جاتی ہے اور متاثرین کو اس کا عشر عشیربھی نہیں ملتا۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد آنے والی امداد کے بارے میں ایسی خبریں مسلسل آتی رہی ہیں۔ حکومت سندھ نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ غریب عوام کی امداد کے لیے 20 لاکھ راشن بیگ تیار کیے جارہے ہیں جن میں کھانے پینے کی اشیا پیک کرکے تقسیم کی جائیں گی، اس معاملے پر بھی ایسے ہی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے کیوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے جو لوگ امداد لے رہے تھے اُن میں بے شمار سرکاری ملازمین، افسران اور ایم پی اے کے رشتے دار شامل تھے۔ اسی طرح حکومت ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف اعلان تو کررہی ہے مگر پچھلی مرتبہ جو لوگ آٹا اور چینی کے بحران میں شامل تھے اُن کے خلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی بلکہ مزید یہ کہ چینی کی درآمد کا جو فیصلہ کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ اس طرح آئندہ کے لیے چینی کی قلت پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
اس صورت حال میں حکومت کورونا وائرس سے ہلاکتوں کو روکنے کے اقدامات کررہی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ غربت، بھوک اور افلاس سے مرنے والوں کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں۔