بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

1003

 

 

شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
کوچ کردہ دستہ دستہ آشنایان عندلیباں
باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
نائن الیون کے بعد کہا جاتا تھا اب دنیا وہ نہیں رہے گی جو نائن الیون سے پہلے تھی۔ یہ بات کورونا کی وبا پر زیادہ صادق آتی ہے۔ نائن الیون کو تو دنیا کو بدلنے میں دس بیس برس لگے۔ کورونا نے دو ڈھائی ماہ میں ہی دنیا کو کیا سے کیا کردیا۔ اس وائرس کا آغاز چین سے ہوا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بیماریاں بھی میڈ ان چائنا ہوں گی۔ نائن الیون کے بعد کورونا وائرس تیسرے نمبر پر ہے جس نے اہل پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ دوسرے نمبر پر 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ ہے۔ کورونا کے نتیجے میںدنیا لاک ڈائون ہوکر رہ گئی ہے۔ بیش تر ممالک کی سرحدیں بند، پروازیں معطل، سیاحت مفقود، تفریح گاہیں ویران، شادی ہال، ہوٹل، ریسٹورنٹ بند، پورے پورے شہر ویران، سڑکیں سنسان، بازار اور شاپنگ مال خالی۔ ہری بھری دنیا ویران جزیرہ بن کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ آب وہوا کی وہی سر مستیاں ہیں، موسم ویسے ہی عاشقانہ ہیں، شفق اور دھنک کی وہی دلربائی ہے، زمین ویسی ہی گل زمین ہے لیکن کوئی دیکھنے والا نہیں، کوئی لطف اندوز ہونے والا نہیں۔
عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے ویرانی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
کورونا نے دنیا بدل ڈالی لیکن ہمارے حکمرانوں کو بدل دے یہ اس کے بس میں نہیں۔ کسی زمانے میں ڈاکٹر حلف اٹھایا کرتے تھے کہ بلا تفریق رنگ ونسل انسانوں کی جان بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے حلف اٹھا رکھا ہے کہ لوگوں پر کیسی ہی مصیبت ٹوٹے، انسانی جانیں کتنی ہی خطرے میں ہوں وہ کرپشن اور بدعنوانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ خبر آئی ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کورونا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک سے دو کروڑ ماسک اسمگل کردیے۔ آٹا، چینی کی ذخیرہ اندوزی اور مہنگی ادویات سے بات فیس ماسک تک آگئی ہے۔ تاہم ایک بات قابل غور ہے کورونا نے سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ کورونا سے متاثر کوئی امیر ہو یا حکمران علاج کے لیے بیرون ملک نہیں جاسکیں گے۔ سنا ہے کورونا سے متاثر ممالک کے مرکزی بینک مختلف معاشی پیکیجز پر غور کررہے ہیں تاکہ معیشت کو گرنے سے روک سکیں سوائے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت جتنی گر چکی ہے کورونا آئے یا اس کا باپ اس سے زیادہ گر ہی نہیں سکتی۔
کورونا واقعی تمام وائرسوں کا کرائون اور سرتاج ہے۔ نزلہ زکام جسے بیماری سمجھا ہی نہیںجاتا تھا اب سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ کورونا کی بڑی احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ معمولی نزلہ زکام ہے تو زندہ رہنے کے لیے نیوز چینلز سے دور رہیں۔ اللہ گواہ ہے ہم کورونا سے ذرا فکر مند نہیں لیکن جب سے وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا ہے کہ کورونا کی میں خود نگرانی کروں گا ہم ڈھیروں ڈھیر فکر مند ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ڈالر کا نوٹس لیا 98سے 158 پر چلاگیا۔ پٹرول کی طرف نظر کی 62سے 112ہوگیا۔ ادویات کی نگرانی کی 300 والی دوا 1300 کی ہوگئی۔ ایک بات ہمیں میں سمجھ نہیں آرہی وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر ہیں نہ اچھے منتظم کورونا کی نگرانی کیسے کریں گے۔ ایک کتا کسی گاڑی کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ ایک میراثی کی نظر اس پر پڑی۔ اس نے کتے کو ٹانگوں سے پکڑ کر باہر گھسیٹ لیا اور بولا ’’ایڈا توں انجینئر۔ آیا بڑا انجینئر‘‘۔ اس اعلان کے بعد کورونا بھی فکر مند ہوگیا ہے کہ عمران خان اس کا بھی وہی حال نہ کریں جیسا پاکستان کا کیا ہے۔ وائرس کا ایک ستم یہ کہ خودنمائی کے مارے چہروں کو نقاب پہننے پر مجبور کردیا دوسرا امتحان یہ کہ بیوٹی پارلرز بھی بند ہوگئے ہیں۔ بیوٹی پارلرز زیادہ دن بند رہے تو مونچھوں والی خواتین دیکھنا پڑیں گی۔ کورونا وائرس سے کوئی خوش ہے تو وہ جہانگیر ترین ہوںگے اب کرکٹ کے سنسان میدانوں میں کوئی انہیں چینی چور اورآٹا چور کہنے والا نہیں رہا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہوتے تو اب تک کورونا وائرس فنڈ قائم کرچکے ہوتے لیکن سنا ہے اب انہیں اپنے کسی بیٹے کی شادی نہیں کرنی جو ڈیم کا افتتاح کرسکے۔
کورونا کے کرائون ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت جس نے کتے کے کاٹے کے ان گنت کیسز کا نوٹس نہیں لیا، تھر میں سیکڑوں بچے بیماری سے مرگئے مڑ کر نہیں دیکھا لیکن کورونا کے معاملے میں سرگرمی اللہ اللہ۔ وفا قی حکومت بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں ہے۔ ان سرگرمیوں کے بارے میں ناقدین کی رائے کچھ اور ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں کوروناکو سیریس نہیں لیا جارہا تھا۔ لوگ کورونا کو سیریس لیں، کورونا کے مریض برادر ملک ایران سے امپورٹ کیے گئے۔ اس پر بھی متاثرین کی تعدا دکم رہی لیکن جیسے ہی آئی ایم ایف نے کورونا سے متاثر ممالک کے لیے 150ارب ڈالرز کے فنڈز جاری کرنے کا اعلان کیا اگلے ہی لمحوں کورونا کے مریضوں کی تعداد 16سے 200 ہوگئی اور حکومت نے لاک ڈائون کی طرف جاناشروع کردیا۔ اللہ خیر کرے اب ورلڈ بینک نے بھی کورونا فنڈ قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کورونا سے متاثر ممالک کے قرضے معاف کرنے کی اپیل کردی ہے۔ عمران خان کے آنے کے بعد تو ڈالروں کی بہار نہ آسکی ممکن ہے کورونا کے بعد ڈالروں کی برکھا برس جائے۔
سعودی عرب کے حکمرانوں سے ہمیں گلہ ہے کہ جن دنوں ملائیشیا اور ترکی مل کر عالم اسلام کے لیے ایک نئی او آئی سی بنا رہے تھے انہوں نے عمران خان کو ملائیشیا کے دورے سے روک دیا۔ قوم ایک اچھی تقریر سننے سے محروم رہ گئی۔ کورونا وائرس نے قوم کو یہ موقع دوبارہ مہیا کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہر تقریر شاہکار ہوتی ہے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر تقریر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ نہ جانے کیوں انہوں نے نوٹس کا تکلف کیا۔ امید یہ تھی کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد قوم کورونا کو بھول جائے گی۔ تقریر سے کوئی نہ کوئی نیا موضوع جنم لے گا۔ صد شکر ایسا نہیں ہوا۔ لگتا ہے خاتون اول نے انہیں یقین دلادیا ہے کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ تقریر میں وزیراعظم کی یہ بات بہت اہم تھی کہ میں مہنگائی کرنے والی مافیا کو نہیں چھوڑوں گا۔ لگتا ہے اب جہانگیر ترین اور وزیراعظم کے دوسرے دوستوں کی خیر نہیں۔ عمران خان ایک صادق اور امین وزیراعظم ہیں۔ وہ خود لوٹ مار کرتے ہیں اور نہ لوٹ مار میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ کام ان کے دوست کرتے ہیں اور وہی دوست ان کا گھر چلاتے ہیں۔ نواز شریف وزیراعظم ہوتے تو عمران خان یہ ضرور کہتے ملک کو لاک ڈائون کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے وزیراعظم کرپٹ ہو تو ایسی ہی وبائیں آتی ہیں۔
آخر میں ایک بات۔کورونا کے خوف سے عیاشی کے اڈے مساج سینٹر، سینما، ڈسکو کلب سب بند ہیں۔ وہ جو مسلم خواتین کے چہروں سے حجاب کھینچتے تھے، پردے کے خلاف دلائل دیتے تھے آج خود ماسک میں نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بند کردیا ہے لیکن مساجد ویسے ہی کھلی ہوئی ہیں۔ مساجد سے اب بھی ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ ماسک کی صورت میں حجاب، وضو کی طرح بار بار ہاتھوں کی صفائی، باراتوں کی دھوم دھام کے بجائے سادگی سے نکاح، میلوں ٹھیلوں کے بجائے دعا اذکار کی فکر۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اشارے ہیں چلے آئو اسلام کی طرف حی علی الفلاح۔